یہ صدارتی چناؤ کئی معنوں میں تاریخ رہے گا

راشٹرپتی بھون جانے کی دوڑ میں وزیر خزانہ اور یوپی اے کے امیدوار پرنب مکھرجی کا پلڑا بھاری ہے لیکن اس بار چناؤ کئی معنوں میں تاریخی ہونے جارہا ہے۔ نمبروں کا حساب کتاب پرنب دادا کے حق میں نظر آرہا ہے۔ ووٹوں کی کل تعداد 10.98 لاکھ ہے۔ پرنب مکھرجی کو 6.29 لاکھ ووٹ ملنے کی امید ہے اور پی اے سنگما کو3.10 لاکھ ووٹ مل سکتے ہیں۔ ان ووٹوں میں جنتا دل (یو) اور شیو سینا کے ووٹ پرنب دا کے حق میں شامل ہیں۔ ترنمول کانگریس نے ابھی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ سنگما کو این ڈی اے (جنتا دل (یو) شیو سینا کے بغیر)243000 ،انا ڈی ایم کے اور بیجو جنتا دل 67000 ووٹ مل سکتے ہیں۔ حساب کتاب کے نکتہ نظر سے یوپی اے امیدوار کا جیتنا تقریباً طے ہے۔ اس چناؤ کو لیکر جہاں این ڈی اے تار تار ہوگیا ہے وہیں لیفٹ فرنٹ بھی بٹ گیا ہے۔ فارورڈ بلاک نے پرنب مکھرجی کی حمایت کا اعلان کیا ہے جبکہ دوسری اتحادی جماعت مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی اور آر ایس پی اے پولنگ سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی نے بھی پولنگ سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔بحث جاری ہے کہ پرنب مکھرجی کے نام پر مہر لگانے والی لابی نے زمین آسمان ایک کردیا ہے۔ بنگال کی ساکھ کا حوالہ دے کر پرنب کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کروا لیا ہے۔ جہاں تک ممتا بنرجی کا سوال ہے ہمیں لگتا ہے کہ اب ان کے پاس دو ہی متبادل بچے ہیں یا تو ووٹ ہی نہ ڈالیں یا پھر سنگما کی حمایت کریں۔ سنگما دعوی تو کررہے ہیں ممتا کی انہیں حمایت حاصل ہے حالانکہ پی اے سنگما کانگریس حکمت عملی سازوں کو کوئی بڑی چنوتی نہیں دیتے نظر آرہے ہیں۔ دو ایک باتیں سنگما کے حق میں ضرور جا سکتی ہیں ایک تو وہ مشرقی ریاستوں سے آتے ہیں، وہ اپنی ریاست میگھالیہ میں وزیر اعلی تک کی کرسی پر بیٹھ چکے ہیں۔ نارتھ ایسٹ ریاستیں ضرور سنگما کی حمایت کرسکتی ہیں۔ پھر وہ ایک عیسائی ہیں، عیسائی مذہب سے تعلق ہونے کی وجہ سے فائدہ مل سکتا ہے۔ صدارتی چناؤ کو لیکر پہلے یوپی اے اور این ڈی اے اور پھر لیفٹ پارٹیوں میں جیسے بکھراؤ دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے یہ واضح ہو رہا ہے سیاسی پارٹیوں کی نظر آنے والے لوک سبھا چناؤ پر ہے۔ فی الحال یہ کہنا مشکل ہے سیاسی پارٹیوں کا موجودہ تجزیہ 2014ء لوک سبھا چناؤ تک بنا رہے گایا نہیں۔ لیکن اتنا طے ہے کہ دونوں یوپی اے اور این ڈی اے کی تصویر بدل سکتی ہے۔ جنتا دل (یو) صدر شرد یادو نے پرنب دا کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کانگریس سے دوری بنائے رکھنے کی حتی الامکان کوشش بھلے ہی کی ہو لیکن یہ سچائی ہے کانگریس مخالفت کے باوجود اپنی سیاست چلانے والے اب بھی ان کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ آخر کانگریس امیدوار کی جیت یقینی بنانے والی کوئی بھی پارٹی یہ دعوی کیسے کرسکتی ہے کہ وہ اصولاً کانگریس کے خلاف ہیں؟ عوام یہ ضرور سوال پوچھے گی کہ آخر وہ کونسے حالات اور مجبوری تھی کہ جنتا دل (یو) نے بھاجپا کا ساتھ چھوڑنا بہتر سمجھا؟ عام جنتا بھاجپا سے بھی سوال کرسکتی ہے کہ بڑی اپوزیشن پارٹی ہوتے ہوئے بھی دیش کو اس اعلی ترین عہدے کے لئے پارٹی کو اپنا مضبوط امیدوار کیوں نہیں ملا؟دونوں یوپی اے اور این ڈی اے کو نئے تجزیوں کی تلاش کرنی ہوگی۔ پرنب مکھرجی کی جیت یقینی ہے لیکن ان کا چناؤ نئے تجزیوں کا سبب ضرور بن سکتا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟