یوروپ میں بڑھتا مسلم اثر

پچھلے دنوں فرانس کے صدر نکولس سرکوزی صدارتی چناؤ ہار گئے تھے۔ زیادہ تر لوگ سرکوزی کی ہار کی وجہ ان کے جنوبی نظریئے اورماڈل محبوب کارلا برونی سے عشق بتا رہے ہیں۔ ان کی ہار کو دکشن پنتھی اور لیفٹ نظریئے کی جیت کی شکل میں دیکھا جارہا ہے لیکن دراصل نکولس سرکوزی کو ہٹانے میں فرانس کے پروگیرسیو سوشلسٹ طبقے کے علاوہ تارکین وطن مسلمانوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ مغربی میڈیا جان بوجھ کر اس بات دبا یا نظرانداز کررہا ہے۔ نکولس کی جیت میں بھی مسلم دشمنی کا بڑا ہاتھ تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ ان کے جیتنے پر پیرس سمیت فرانس کے تقریباً ہر شہر میں بڑے پیمانے پر تشدد اور آگ زنی کے واقعات ہوئے تھے۔ شاید پہلا موقعہ تھا جب کسی فرانسیسی صدر کے جیتنے پر جشن کے بجائے ہر طرف آگ اور دھواں پھیل گیا تھا۔ نکولس لیون میں تو10 ہزار کاریں جلا دی گئیں تھیں۔ نکولا نے جیت کے لئے کیا گیا وعدہ پورا کیا اور فرانس میں حجاب اور نقاب پر پابندی لگادی۔ ان کے اگلے قدم پر چلتے ہوئے یوروپ کے کچھ اور ملکوں نے بھی برقع پر پابندی لگادی۔ ظاہر ہے کہ اس سے یوروپی مسلمانوں کے خلاف ماحول بن رہا ہے۔ مانا جارہا ہے کہ 9/11کا خاکہ جرمنی کے ہیمبرگ شہر میں تیار کیا گیا تھا۔ نیدر لینڈ میں کئی مسلم کٹر پسندی حملے ہو چکے ہیں۔فلم ساز کیوبین گارڈا2004 میں مارا گیا جس نے ایک لڑکی کے بدن پر قرآن کی آیتیں لکھ دی تھیں اور پھر اس کی ایک فلم بنائی تھی۔ جرمنی کے میوخ شہر میں مسلم کٹر پسند اسرائیلی کھلاڑیوں کو موت کی نیند سلا چکے ہیں۔برطانیہ میں تو کئی آتنک وادی حملے ہوچکے ہیں۔ آسٹریلیا کا ڈاکٹر حنیف معاملہ بھی سبھی کو یاد ہوگا۔ حالات کا نتیجہ ہے کہ یوروپ ایک نئی قسم کی چنوتی میں الجھ گیا ہے۔ یوروپ کی سرکاریں اب مسلمانوں کے معاملے میں پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہونے پر کچھ حد تک مجبور ہوگئی ہیں۔ مسلمان وہاں کی حکومتیں بننے میں بھی اہم کردار نبھانے لگے ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ یہ بھی ہے کہ یوروپ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ کل27 ملکوں کے یوروپی یونین کی قریب 50 کروڑ کی آبادی میں پونے دو کروڑ مسلمان ہیں۔ فرانس سب سے زیادہ مسلم آبادی والا دیش بن چکا ہے وہاں ہر دسواں شخص مسلمان ہے۔ نکولس کو اس لئے بھی جتایا گیا تھا کہ پیرس اور لیون کی اہم آبادی والی جگہوں پر مسلمان اورایشیائی افریقی اپنی پراپرٹی بڑھاتے جارہے ہیں۔ فرانسیسی نژاد لوگ آؤٹ اسکاٹس میں بسنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ فہرست کی کئی سڑکوں پر چھولے بھٹورے ، سموسے، امرتی، بریانی، کباب،پائے، سیخ کباب، شیر مال، پوری کچوری بک رہی ہے۔ پوری مارکیٹ میں بالی ووڈ کی سی ڈی ، ڈی وی ڈی اور ساڑیاں ، ہندوستانی لباس بک رہے ہیں۔ وی آئی پی کی طرز پر یعنی بنگلہ دیش، انڈین، پاکستان تنظیمیں چل رہی ہیں۔ کسی کو فرانسیسی کرائے دار تنگ کرتے ہیں تو یہ تنظیم ہندوستانی انداز میں اس سے نمٹتی ہے۔ فرانسیسی سماج اس بدلتے ماحول سے بری طرح پریشان ہے۔ ایسے میں ایک اصلاح پسند فرانسیسی سماج نے اس لیفٹ واد مہذب سماج وادی اولاندے کو صدر چنا۔ یہ وہی سماج ہے جس نے جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کیلئے بے نظیر بھٹو کو پناہ دی تھی اور اس آیت اللہ خمینی کو پناہ دی تھی جس نے پیرس میں رہ کر ایرانی انقلاب کا خاکہ تیار کیا تھا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!