ہاتھی مورتی گھوٹالہ 9 لاکھ کی مورتی90 لاکھ میں

اترپردیش میں اس وقت کی وزیر اعلی کے عہد میں ہوئے گھوٹالوں کی پرتیں کھلنے لگی ہیں۔ وزیر اعلی اکھلیش یادو نے منگل کے روز میڈیا کو بتایا یادگاروں وپارکوں کی تعمیر اور ان میں لگے ہاتھیوں کی مورتیوں و دیگر مورتیوں کو لگانے میں پانچ ہزار نہیں بلکہ40 ہزار کروڑ روپے کا گھوٹالہ ہوا ہے۔لکھنؤ کے امبیڈکر پارک میں لگی ہاتھی کی مورتیوں کو بنوانے و انہیں لگوانے میں کروڑوں روپے کی سرکاری پیسہ کی بندربانٹ کی گئی ہے۔آگرہ کے ایک سنگتراش کی شکایت پر حضرت گنج پولیس تھانے نے اس معاملے میں دھوکہ دھڑی ، غبن، دھمکی دینے کی رپورٹ درج کرائی ہے۔ ہاتھی کی مورتیوں کی ادائیگی کے معاملے میں ملزم لکھنؤ ماربل کے مالک ادتیہ اگروال کے وبھوتھی کھنڈ میں واقع دفتر پر ایتوار کے روز جانچ کرنے پہنچی پولیس کی ٹیم کو کئی اہم دستاویز ہاتھ لگے ہیں جن میں دعوی کیا جارہا ہے کہ مایاوتی سرکار نے 9لاکھ روپے کی مورتی کے لئے90 لاکھ روپے ادا کئے۔ جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ ہاتھی کی مورتیوں کی تعمیر کے لئے پی ڈبلیو ڈی نے کسی بھی طریقے سے ٹنڈر نہیں مانگے تھے۔ اس کے لئے نہ تو کوئی ٹنڈر جاری کیا گیا اور نہ ہی کسی اخبار میں اشتہار نکال کر مشتہر کیا گیا۔ چہیتوں کو ٹھیکہ دینے کے لئے صرف کوٹیشن کی بنیاد پر چپ چاپ طریقے سے کروڑوں کے ٹنڈر پاس کردئے گئے۔ اب پولیس انہی حقائق کی بنیاد پر اس گھوٹالے میں نامزد افسروں اور ان کے رشتے داروں کی پراپرٹی کی تفصیلات ٹٹولنے میں لگ گئی ہے۔ ڈی آئی جی لکھنؤ کی ہدایت پر پولیس کی تین ٹیمیں اسٹیٹ تعمیراتی کارپوریشن ،تحصیل آفس اور پاسپورٹ دفتر میں جانچ کرنے پہنچی ہیں۔ ٹیم نے جب اسٹیٹ تعمیراتی کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹراروند کمار گپتا سے پوچھا کہ سرکاری کام کے لئے بغیر کوئی ٹنڈر جاری کئے ہی آخر کوٹیشن کی بنیاد پر کروڑوں کا کام کیسے دے دیا گیا۔ اس کے لئے کسی بھی اخبار میں کوئی اشتہار شائع نہ کراکر چپ چاپ طریقے سے یہ کھیل کھیلا گیا؟ اس پر منیجنگ ڈائریکٹر کوئی جواب نہیں دے سکے۔ پولیس کی دوسری ٹیم تحصیل دفتر میں اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کررہی ہے کہ گھوٹالے میں نامزد 8 افسران و ملازمین و ان کے رشتے داروں کے پاس کتنی پراپرٹی ہے؟ غور طلب ہے کہ آگرہ کے فتحپور سیکری گاؤں پورہ کے باشندے مدن لال نے ایتوار کو وبھوتی کھنڈ تھانے میں رپورٹ درج کرائی تھی کہ لکھنؤ ماربلس کے مالک ودیہ اگروال کے رشتے دار ادتیہ اگروال نے پتھر ہاتھی کی مورتی بنانے کے لئے 48 لاکھ روپے دینے کو کہا تھا انہیں 1 لاکھ روپے ایڈوانس دینے کے بعد 6 لاکھ56 ہزار روپے اور دے دئے گئے۔ منگل کے روز وزیر اعلی اکھلیش یادو نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یادگاروں و پارکوں کی تعمیر میں مورتیوں میں تو گھوٹالہ ہوا ہی ساتھ ہی ان یادگاروں اور پارکوں میں لگائے گئے کھجور کے پیڑوں کی خرید میں بھی گڑ بڑی کی بات پتہ چلی ہے۔وسیع پیمانے پر ہوئی ان پیڑوں کی اناپ شناپ خرید کی ساری تفصیل اکٹھی کرائی جارہی ہے۔ تعمیر کی لاگت میں زمین کی قیمت کا تخمینہ اور یادگاروں و پارکوں میں بنی کئی عمارتوں و مہنگے پتھروں کی باؤنڈری کو کئی بار توڑا جانا شامل ہے۔ سارا حساب کتاب جلد سامنے آجائے گا۔ بسپا عہد میں ہوئے گھوٹالوں کی پرتیں اب آہستہ آہستہ کھلنے لگی ہیں۔
Akhilesh Yadav, Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Daily Pratap, Lucknow, Mayawati, Uttar Pradesh, Vir Arjun 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟