ایسے لیپا پوتی جائزے سے کانگریس کا کوئی بھلا نہیں ہوگا



Published On 13 May 2012
انل نریندر
اترپردیش میں کانگریس چناؤ ہاری اس کا جائزہ لینے کے لئے پچھلے کئی دنوں سے کانگریس میں غور و خوض چل رہا ہے۔ کئی میٹنگیں ہوئیں ، کئی کمیٹیاں بنیں لیکن آخر میں نتیجہ وہی صفر نکلا۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے لیپا پوتی کرتے ہوئے پارٹی میں گروپ بندی اور ڈسپلن شکنی کو برداشت نہ کرنے کی تنبیہ کی اور کہا کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ہم نے سوچا تھا کہ سونیا جی پارٹی کے لئے ہار کے ذمہ دار لوگوں پر سخت کارروائی کریں گی لیکن انہوں نے ایسا نہ کرنا بہتر سمجھا اور ڈرا دھمکاکر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ ایسی وارنگ سونیا پہلے بھی دے چکی ہیں۔ براڑی میں دو سال پہلے ہوئے کانگریس اجلاس میں سونیا گاندھی نے ورکروں سے گروپ بندی چھوڑ کر کمر کسنے کو کہا تھا۔ پچھلے سال دہلی میں بھی پارٹی کے ایک اجلاس میں سونیا نے عہدے کا لالچ رکھنے والوں پر چٹکی لیتے ہوئے کہا تھا کہ کانگریس میں سب کا نمبر آتا ہے۔ سونیا کے قول کا کانگریسیوں پر کوئی اثر نہیں ہوا، نہ ہی انہوں نے سونیا کی بات کو سنجیدگی سے لیا۔ نتیجہ سامنے ہے ۔ کانگریس پچھلے دو سال سے بہار، یوپی، پنجاب ،گووا ہار چکی ہے۔ آندھرا پردیش میں بھی اس کی حالت خستہ ہے۔ راجستھان میں گہلوت سرکار کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن رہی ہو یا پچھلا دہلی میونسپل چناؤ ، سب جگہ کانگریس کو جھٹکے پر جھٹکے لگ رہے ہیں۔ بہار یوپی میں تو چناوی کمان راہل گاندھی کے ہاتھوں میں تھی لیکن سونیا نے خود پر اور راہل پر ذمہ داری لے کر ایک نئے تنازعے کو جنم لینے سے پہلے ہی ختم کردیا اور اس سے پہلے کے کوئی راہل گاندھی پر انگلی اٹھائے معاملے کو ہی ختم کردیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے جمہوری نظام کا پہیہ چناؤ ہے لیکن جس بنیاد پر چناوی کمیابی ملتی ہے اور اس کی سوچ طریقہ کار بھی معنی رکھتی ہے۔ اس کے ذریعے ہی اقتدار ملتا ہے جو عوامی کام کو کرا پاتے ہیں۔ کانگریس کو یہ نظریہ وراثت میں ملا ہے پھر بھی وہ حالیہ دہائی میں اگر اس سے ڈگماتی ہوئی لگتی ہے تو اس پر اس کو سنجیدگی سے غورکرنا چاہئے لیکن خود جائزہ ایسا نہیں ہونا چاہئے جس کا کوئی مطلب نہ نکلے۔موجودہ حالات میں یہ کہنا تکلیف دہ ہے کہ کانگریس بھی اپنی کمزوری اور ہار کے اسباب پر منتھن کہنے بھر کے لئے کرتی ہے۔ حقیقی معنی میں وہ ایسا کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ اگر کانگریس سنجیدہ ہوتی تو مختلف ریاستوں میں وقتاً فوقتاً ہوئی شکستوں اور اس کے جائزے کے لئے تشکیل کمیٹیوں کی طرف سے گنائے جانے والے اسباب ابھی تک دور نہیں کئے گئے۔یقینی طور سے کانگریس کسی سینئر لیڈر شپ کو یہ معاملوں ہے کہ پردیش میں علاقائی سطح کے اپنے اپنے گروپ ہیں اور عام ورکروں کی جگہ ان کے چاپلوس ہیں ،جس سے وہ گھرے رہتے ہیں ۔وہ عام ورکروں کے بھی نیتا ہیں ایسا نہیں مانتے۔ ممکنہ طور پر اس کی ایک وجہ نیتاؤں کے ورکروں میں جوش بھرنے کی جگہ اپنے مفادات حاوی ہوئے ہیں۔ وہ یہ مان کر چلتے ہیں کہ ووٹ ڈلوانے کے لئے گاندھی خاندان کافی ہے۔ اس کے آگے نہ تو انہیں مہنگائی کا نہ کرپشن کا اور نہ ہی بڑھی بے روزگاری کا اشو ہوتا ہے۔ ان کے سامنے بنیادی پریشانیاں جیسے بجلی پانی کے مسئلوں پر حل کے لئے لوکپال ، لوک آیکت کی تقرری ضروری ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کانگریسی چھٹ بھیا یہ بھی نہیں سمجھنا چاہتے کہ اب گاندھی خاندان کا وہ کرشمہ نہیں رہا۔ پہلے بہار اور اترپردیش میں یہ جتادیا ہے کہ گاندھی خاندان ووٹ کھینچو یا چناؤ جیتنے کی گارنٹی اب نہیں ہے۔ سارا زور لگاکر بھی گاندھی خاندان کی تین پیڑھیوں کے وارث اترپردیش کے چہیتے نہیں ہوسکے۔ بہار بے تو سرے سے راہل گاندھی کو ٹھکرا ہی دیا ہے۔ اس لئے ان کی ٹیم کے باقی لیڈروں نے کچھ ٹھوس کام ہی نہیں کئے۔ عوام میں وہ یہ بھروسہ پیدا نہیں کر سکے کہ کانگریس کو ووٹ دینے میں ہی ان کی بھلائی ہے۔ غورتو اس بات پر ہونا چاہئے کہ ٹیم راہل زمین پر کم ہوائی زیادہ کیوں ہورہی ہے؟ لیکن پارٹی صدر نے راہل گاندھی کو مرکز میں رکھ کر چناوی جائزہ نہیں لیا ۔اگر کانگریس واقعی ہی پارٹی میں اصلاح چاہتی ہے تو ہار کے صحیح اسباب پر بحث کرنے کی ہمت دکھائے اور قصوروار لیڈروں پر سخت کارروائی کرے تاکہ پارٹی کے باقی لیڈروں میں ایک خوف پیدا ہوسکے۔ کانگریس کو اگر اس سال ہونے والے گجرات، ہماچل سمیت کئی ریاستوں میں چناؤ میں فتح حاصل کرنی ہے تو اسے مرکز میں اپنی لنج پنج منموہن سرکار کی کمیوں پر غور کرنا چاہئے۔ ڈسپلن شکنی اور گروپ بندی سے پرہیز کی نصیحت کے لائق بنانے کے لئے مثالوں کو ایسی بنیاد دی جانی چاہئے تاکہ اس پر پارٹی ایمانداری سے عمل پیرا ہوسکے۔ اس لیپا پوتی جائزے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Rahul Gandhi, Sonia Gandhi, State Elections, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟