2جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں آخری ملزم اے راجہ کی ضمانت

حالیہ برسوں میں دیش کی سیاست میں بھونچال لانے والے 1لاکھ 76 ہزار کروڑ روپے کے 2 جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں گرفتار اہم ملزم اور جیل میں بند آخری ملزم سابق مرکزی ٹیلی کام منسٹر اے راجہ کو آخر کار عدالت سے ضمانت مل گئی۔ دہلی کی تہاڑ جیل میں سوا سال گزارنے کے بعد اے راجہ باہر آکر اگلے دن ہی پارلیمنٹ میں بھی پہنچ گئے۔49 سالہ راجہ کافی خوش دکھ رہے تھے لیکن انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں کھڑے نامہ نگاروں سے کوئی بات چیت نہیں کی۔ اے راجہ کو 2 فروری 2011 ء کو گرفتار کیا گیا تھا۔عدالت نے اے راجہ کو 20 لاکھ روپے کے نجی مچلکہ اور اتنی ہی رقم کے دو بونڈ پر ضمانت دینے کا حکم دیا۔ 
ضمانت ملنے کے بعد راجہ نے کہا کہ ان کے خلاف معاملہ جھوٹا اور من گھرنٹ ہے اور قانون کی بنیاد پر ٹکنے والا نہیں ہے۔2 جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں گرفتاری کے بعد ضمانت کے لئے درخواست نہ کرنا اے راجہ کی ایک سوچی سمجھی چال تھی۔ انہوں نے اس معاملے میں ملزم کم بلکہ ایک پیشہ ور وکیل کی طرح زیادہ کام کیا۔معاملے کی نزاکت اور میڈیا کے اٹینشن کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ضمانت کی عرضی نہیں دی اور پورے15 مہینے جیل میں رہے۔ راجہ کو معلوم تھا کہ سی بی آئی نے انہیں پورے کیس کی بنیاد بنا رکھا ہے اور جب بھی ضمانت کے لئے وہ درخواست کریں گے سی بی آئی یہ ہی دلیل پیش کرے گی۔ اس لئے انہوں نے سی بی آئی کو چارج شیٹ داخل کرنے دی۔ اتنا ہی نہیں انہوں نے چارج شیٹ پر نوٹس لینے اور ٹرائل شروع ہونے کے بعد بھی ضمانت کی عرضی نہیں دی۔ یہاں تک کہ ڈی ایم کے ممبر پارلیمنٹ اور پارٹی سربراہ کی بیٹی کنی موجھی کی ضمانت کے بعد بھی انہوں نے درخواست نہیں دی جبکہ ممبر پارلیمنٹ کو ملی ضمانت ان کی درخواست کی ٹھونس بنیاد بن سکتی تھی۔ انہیں درخواست تب کی جب گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے معاملے کے آخری ملزم سابق ٹیلی کوم سکریٹری سدھارتھ بہرا اور پرائیویٹ سکریٹری آر کے بدھولیا کو ضمانت دے دی۔ اس پالیسی کا فائدہ یہ ہے کہ راجہ کے خلاف عدالتوں نے تبصرہ نہیں کیا۔ یہاں تک کہ ضمانت دیتے ہوئے سی بی آئی کورٹ نے کہا کہ راجہ ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرسکتے کیونکہ سبھی ثبوت دستاویزوں کی شکل میں ہیں۔ راجہ کے لئے کورٹ کا یہ مثبت رویہ ہے جو ٹرائل کے دوران ان کے حق میں جائے گا۔ ویسے اے راجہ ضمانت پر ایسے وقت باہر آئے ہیں جب اسپیکٹرم گھوٹالے سے اٹھتی آنچ نے ان کے سابق ٹیلی کوم منسٹر دیاندھی مارن اور وزیر خزانہ پی چدمبرم تک کو اپنی زد میں لے لیا ہے۔مارن پر الزام ہے کہ ٹیلی کوم منسٹر رہتے انہوں نے ایک دیشی ٹیلی کوم کمپنی ایئرسیل کو ملیشیا کی ایک کمپنی کے ہاتھوں بکنے پر مجبور کیا اور اس کے عوض میں اس ودیشی کمپنی سے قریب 600 کروڑ روپے رشوت کی شکل میں بٹورے۔ لیکن حال کے خلاصے تو اور بھی سنگین ہیں جن میں چدمبرم کے ساتھ ان کے بیٹے کارت چدمبرم کا بھی نام اچھلا ہے اور پتہ چلا ہے کہ اس غیر ملکی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کیلئے ملک کے سخت قانونوں کو کیسے طاق پر رکھ دیا گیا۔
پارلیمنٹ میں چدمبرم جب اپنی صفائی میں کہتے ہیں کہ' چاہے میری چھاتی میں خنجر گھونپ دو لیکن ایمانداری پر شک مت کرو' تب انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ ان کے وزیر خزانہ رہتے ایک غیر ملکی کمپنی دیش کے قانون سے کیسے کھیل گئی؟ بھارت کے قانون سے کھلواڑ کرنے اور سرکار سے دھوکہ دھڑی کرنے کے واضح ثبوتوں کے باوجود کیوں مکسنز کا لائسنس کینسل کردیا۔ اس کے خلاف مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟ چدمبرم نے پارلیمنٹ میں صاف انکار کردیا کہ ان کے یا پریوار کے کسی ممبر کے پاس کسی بھی ٹیلی کام کمپنی کے شیئر رہے ہیں۔تب انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ ایئر سیل ،میکسنز سودے میں ان کے بیٹے کارتک چدمبرم کا نام کن حالات میں اچھلا ہے؟ اے راجہ کی ضمانت پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ملزموں کے وکیل ماجد مینن کا کہنا ہے کہ سی بی آئی کے کیس میں دم نہیں ہے اور وہ عدالت کی سخت جانچ جھیل نہیں پائے گی۔ انہوں نے کہا کہ جانچ ایجنسی کہہ رہی ہے کہ 2 جی اسپیکٹرم کو بیچنے میں 1.75 لاکھ کروڑ کا گھوٹالہ ہوا ہے لیکن کیا اس کے پاس اس کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے۔ ابھی تک کی کارروائی میں سی بی آئی نے اس کا ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔اس سے مجھے ایک راج نیتا کی ایک بات یاد آگئی۔ نیتا نے کہا کہ اگر کوئی سیاستداں کسی بھی الزام میں جیل جانے کو تیار ہے تو وہ صاف بچ سکتا ہے۔ کہیں اے راجہ کا یہی قصہ نہ ہو۔ جیل تو وہ ہو آئے لیکن دیش کو 1.75 لاکھ کروڑ کی ریکوری میں بھی اتنی دلچسپی ہے جتنی سزا کاٹنے میں۔ کیا سی بی آئی اس رقم کو کبھی ریکور کر سکے گی؟
2G, A Raja, Anil Narendra, Daily Pratap, P. Chidambaram, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!