60 برس کی ہوئی ہندوستانی سنسد!



Published On 15 May 2012
انل نریندر
ہندوستانی جمہوریت کے سپریم ادارے یعنی پارلیمنٹ نے اپنے 60سال کا سفر پورا کرلیا ہے۔ 3 اپریل 1952ء کو پہلی بار اوپری ایوان یعنی راجیہ سبھا تشکیل دی گئی۔ اس کا پہلا اجلاس 13 مئی 1952 ء کو بلایا گیا۔ اسی طرح17 اپریل 1952 ء کو پہلی لوک سبھا کی تشکیل ہوئی اور پہلا اجلاس13 مئی 1952 ء کو بلایا گیا۔ ہندوستانی پارلیمنٹ کے 60 سالوں کے سفر اور کارناموں اور چیلنج کے نکتہ نظر سے ملا جلا رہا ہے۔ جب پارلیمنٹ کی تشکیل ہوئی تھی تو دیش کے عام اور غریب لوگوں کی توقعات تھی کہ آزاد بھارت میں ان کی ساری امیدیں پوری ہوجائیں گی اور اب اپنی سرکار بنی ہے جس کا پہلا فرض اپنی عوام کے تئیں سیوا ہوگا۔ ان 60 برسوں میں دیش نے بہت ترقی کی ہے۔ شہروں میں جدید بہتر سہولیات بڑھی ہیں، دیہات میں ترقی ہوئی ہے، فی شخص آمدنی بڑھی ہے۔ ریلوے، ہوائی جہاز، میٹرو جیسی سہولیات بڑھی ہیں لیکن پچھلے کچھ برسوں میں پارلیمنٹ کے وقار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ پارلیمنٹ کا وقار دن بدن گرتا جارہا ہے۔ ممبران کا برتاؤ بھی بدسے بدتر ہوتا جارہا ہے۔ آج عام جنتا پارلیمنٹ سے کچھ حد تک ناراض ہے ،مایوس ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ کی کارروائی اور ممبران کے برتاؤ کو دیکھ کر کافی دکھ ہوتا ہے۔ دیش میں اقتصادی ترقی اچھی ہوئی ہے۔ بیشک دیش نے ترقی کی لیکن اس حساب سے جمہوری دیش کی سیاست و سماج اور سسٹم اور انتظامی ڈھانچہ بہتر نہیں ہوسکا۔ عوامی لیڈروں کی دیش میں کمی ہوگئی ہے اور پارلیمنٹ میں پہلے کی طرح اب جنتا سے جڑے اشو کم اٹھتے ہیں۔ سیاست میں بھاری گراوٹ آئی ہے۔ سیاست میں جرائم کرن بڑھا ہے اور اس کی وجہ سے لوک سبھا میں کئی مجرمانہ نظریئے کے ایم پی بھی نظر آرہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ممبران کے برتاؤ پر آئے دن سرخیاں بنتی رہتی ہیں۔ ایک دوسرے پر چیخنا ،گھونسے بازی، کاغذات چھینناپھاڑنا،دستاویزات کو وزرا پر پھینکنا، آئے دن ایوان کا التوا ہونا ، ایک رواج سا بن گیا ہے۔ آج کی ہندوستانی پارلیمنٹ نے پچھلے برسوں میں کئی بڑے لیڈر بھی دیکھے ہیں ۔ جواہر لعل نہرو، سردار بلب بھائی پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، اٹل بہاری واجپئی، فیروز گاندھی، چندر شیکھر، رام منوہر لوہیا، جوترمے بسو ، موہن دھاریہ، مدھولمے جیسے سرکردہ لیڈروں نے اسی پارلیمنٹ کو زینت بنایا۔ یہ سبھی لیڈر اصول پرست اور دور اندیش عوام کے صحیح نمائندہ تھے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کئی ایم پی صنعتی گھرانوں کی نمائندگی کرتے ہیں تو کئی ایم پی مافیہ گروہ کی، جو ایک دہائی سے چلے آرہے ہیں۔ ان میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے کردار اور تشکیل اور آپسی تنازعے اور پروگرام میں جو بھی تبدیلی ہوئی ہے ان سے سارا پارلیمانی کلچر بدل گیا ہے۔ ہاں بھارت اس بات پر فخر کرسکتا ہے کہ ساری کمیوں کے باوجود ہمارے دیش میں 60 برسوں میں پارلیمانی جمہوریت چلی آرہی ہے۔ ہمارے دیش میں بیلٹ سے تبدیلی اقتدار ہوتا ہے ،گولی سے نہیں۔ آزادی اور پارلیمنٹ دونوں ہی انتہائی نازک پودے ہیں۔ اگر انہیں توجہ سے نہیں سینچا گیا اور بنائے نہ رکھا جائے تو یہ جلد ہی مرجھا جاتے ہیں۔ اگر ہمیں پارلیمنٹ اور پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط بنانا ہے تو سب سے پہلے ایسا کچھ کرنا ہوگا جس سے پارلیمنٹ اور ممبران کے روایتی وقار پھرسے قائم ہوں اور پھر سے انہیں مینڈیڈ سے احترام اور پیار کی جگہ مل سکے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Parliament, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟