مورتی ڈھکنے کا آدیش مایاوتی کے حق میں نہ چلا جائے؟


Published On 17th January 2012
انل نریندر
ایتوار کو اترپردیش کی وزیر اعلی و بسپا چیف مایاوتی کی 56 ویں سالگرہ تھی۔چناؤ ضابطہ و چناؤ کمیشن کی سختی کے سبب بہن جی نے اس سال اپنی سالگرہ سادگی سے لکھنؤ میں منائی۔اس موقعہ پر مایاوتی نے چناؤ کمیشن کو کھری کھوٹی سنائیں۔ مورتیوں کو ڈھکنے کے فرمان سے ناراض بہن جی نے کہا کہ چناؤ کمیشن کانگریس کے دباؤ میں کام کررہا ہے اور چناؤ کمیشن کو چنوتی دی کہ جس طرح اترپردیش میں ان کے مجسموں اور بسپا کے چناؤ نشان ہاتھی کو ڈھک دیا ہے اسی طرح وہ کانگریس کے چناؤ نشان ہاتھ کو ڈھکنے کی ہمت دکھائے۔ انہوں نے کہا کہ میری حکومت نے کانشی رام کی وصیت کے مطابق ان کے بت کے ساتھ لگی میری مورتیاں ڈھک کر چناؤ کمیشن کے حکم کی تعمیل کی۔ چناؤ کمیشن کو چنڈی گڑھ میں کانگریس کی حکومت کے عہدۂ میعاد میں سرکاری خرچ سے سینکڑوں ایکڑ زمین میں بنے پارک میں 45 فٹ اونچے ہاتھ کے پنجے اور یوپی میں سرکاری خرچ سے لگائے گئے راشٹریہ لوکدل کے چناؤ نشان ہینڈ پمپ کو بھی ڈھکنے کا فرمان جاری کرنا چاہئے۔ کمیشن کا یہ فیصلہ کانشی رام کی وصیت کی توہین ہے۔ کانگریس کے ترجمان راشد علوی نے تسلیم کیا ہے کہ چناؤ کمیشن کے اس حکم سے بسپا کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی شکایت پر چناؤ کمیشن نے یوپی میں مایاوتی اور بسپا چناؤ نشان ہاتھی کو ڈھکنے کا حکم تو دے دیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ اس قدم کا نفع نقصان کیا ہوگا؟ ہمیں تو لگتا ہے کہ چناؤ کمیشن کا یہ فیصلہ بسپا کے حق میں جاسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ چناؤ کمیشن کے اس فیصلے سے مایاوتی کو ہی فائدہ ہوگا۔ پارٹی نے اس فیصلے کو ''دلت وقار '' سے جوڑ دیا ہے۔ پوری طرح سے ذات پات پر مبنی انتخابات میں چناؤ کمیشن کے اس فیصلے نے ایک بار پھر بسپا حمایتیوں کو متحد کردیا ہے۔ بی ایس پی نے ہائیکورٹ میں اس سلسلے میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے جو تکنیکی اسباب کے سبب خارج کروادی ہے لیکن چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر پارٹی سکریٹری جنرل ستیش مشرا نے یہ صاف کردیا ہے کہ اس فیصلے سے دلت سماج خود کو ٹھگا سا محسوس کررہا ہے۔ چناؤ کمیشن کو اس طرح کا فیصلہ دیگر پارٹیوں کیلئے بھی لینا چاہئے نہیں تو یہ فیصلہ آئین کی دفعہ14شق کی خلاف ورزی ہوگی۔ چناؤ کمیشن کے یہ متنازعہ فیصلے بہن جی کے الٹے حق میں جارہے ہیں۔ اب دلتوں کو مورتیوں کو ڈھکنے میں جانبداری نظر آرہی ہے۔ بسپا نے اسے دلت وقار سے سیدھا جوڑدیا ہے۔ ٹی وی اور اخباروں کے سبب چناؤ کمیشن کا یہ فیصلہ گاؤں گاؤں تک پہنچ چکا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ یہ اشو دن بہ دن گرما رہا ہے۔ ذات کی بنیاد پر بٹے یوپی کے ووٹروں میں بھی اس مسئلے کو عزت و بے عزتی سے جوڑدیا گیا ہے۔ اس بنیاد پر ایک طبقہ دلتوں کو طعنے دے رہا ہے۔ اس کے چلتے وہ متحد ہورہے ہیں۔ کچھ فیصدی دلت ووٹ جو اس فیصلے سے پہلے بسپا سے بدک رہا تھا اب وہ پھر واپس بہن جی کی پناہ میں آتا نظر آرہا ہے۔ جب سبھی پارٹیاں ذات کی بنیاد پر اپنے امیدوار طے کررہی ہوں تب تک کسی ایک طبقے سے وابستہ پارٹی کے لئے ایسا فرمان تاحیات حامی ثابت ہوسکتا ہے۔ہمیں لگتا ہے کہ مایاوتی اپنی چناؤ مہم کا آغاز اسی اشو سے کریں گی اور لوگوں کو بتائیں گی کہ ان کی حکومت نہ بننے پر اپوزیشن دلتوں کے نیتاؤں کے بتوں کو اکھاڑ کر دلت وقار سے کھلواڑ کریں گے اور ان کی بے حرمتی کریں گے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Election Commission, Elephant, Mayawati, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟