گجرات ہائی کورٹ نے لوک آیکت معاملے میں دیا مودی کو جھٹکا
Published On 21th January 2012
انل نریندر
گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو لوک آیکت معاملے میں یقینی طور سے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے سے جھٹکا لگا ہے۔ گجرات ہائی کورٹ نے گورنر کی جانب سے لوک آیکت مقرر کرنے کو پوری طرح سے آئینی اور قانونی طور پر جائز ٹھہرایا ہے۔ لوک آیکت کی تقرری کو لیکر مودی حکومت کے ٹال مٹول کے بعد گورنر محترمہ کملا بینی وال نے پچھلے سال25 اگست کو ریٹائرڈ آر اے مہتہ کو ریاست کا لوک آیکت مقرر کیا تھا۔ گجرات میں نومبر 2003ء سے لوک آیکت کا عہدہ خالی پڑا تھا۔گورنر نے جسٹس مہتہ تو لوک آیکت قانون 1986 کی ضمنی دفعہ3 کے مخصوص اختیارات کا استعمال کرکے مقرر کیا تھا۔ 26 اگست کو گجرات حکومت نے ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی۔ تین مہینے پہلے ہائی کورٹ نے منقسم فیصلہ دیا تھا۔ بدھوار کو تیسرے جج وی ایم سہائے کی عدالت نے اختلافی نقطوں پر سماعت کے بعد گورنر کے فیصلے کو صحیح ٹھہرایا تھا۔ دونوں فریقین کے وکیلوں کی رائے اپنے حساب سے رکھی گئی تھی۔ عقیل قریشی کا کہنا تھا کہ لوک آیکت کی تقرری صحیح اور آئین کے تحت ہے جبکہ سونیا بین گونکنی کا کہنا تھا کہ مہتہ کو لوک آیکت مقرر کرنے کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔ اب معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ گجرات حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کردیا ہے۔ یہ اچھا ہوا کہ یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں پہنچ گیا۔ پچھلے سال پورے وقت دیش میں کرپشن پر روک لگانے کیلئے لوکپال قانون کی مانگ گونجتی رہی۔ اس شور و غل کے درمیان لوگوں کو یاد نہیں رہا کہ کئی ریاستوں میں کرپشن پر نظررکھنے کے لئے لوک آیکت نامی ایک ادارہ پہلے سے ہی قائم ہے۔ ہم نے گذشتہ دنوں بھی یہ دیکھا کہ لوک آیکت کیا کیا کرسکتے ہیں۔ اترپردیش میں لوک آیکت نے مایاوتی سرکار کا ناک میں دم کررکھا ہے اور نتیجے کے طور پر کئی وزرا ء کو باہرکا راستہ دکھانے پر مایاوتی مجبور ہوئیں یہ بات اور ہے کہ ریاستوں میں لوک آیکتوں کے وجود اور ان کے اختیارات وہاں کی حکومتوں کے رحم و کرم پر ہیں۔کئی ریاستوں نے تو اتنے ہنگامے کے باوجود لوک آیکتوں کو اب تک ضروری نہیں سمجھا اور کچھ ریاستوں نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اس عہدے کو بنایا تو لیکن اپنے حساب سے کاٹ چھانٹ کرتے ہوئے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے لوک آیکت کے معاملے میں پورے دیش میں ایک رائے سامنے آئے گی اور پارٹیوں کو مرکز بنام ریاست کی آڑ میں سیاست کرنے کا موقعہ نہیں ملے گا۔ گجرات کا نمونہ آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے ۔ گجرات بیشک اپنے صنعت اور کاروبار کے لئے سب سے معقول ریاست ہونے کا پروپگنڈہ کرتا رہے لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ریاست پچھلے 8 برسوں سے لوک آیکت کے بغیر چل رہی تھی۔ وہاں کے گورنر اور وزیر اعلی کی چخ چخ کے بارے میں سبھی جانتے ہیں۔ویسے بھی پچھلے کچھ عرصے سے لگتا ہے کہ نریندر مودی میں تھوڑا غرور آگیا ہے۔ یہ جھٹکا ان کیلئے بھی اچھا ہے۔ اب وہ تھوڑا زمین پراتریں گے۔ مودی سرکار کہہ رہی ہے کہ گورنر نے ریاستی کیبنٹ کی توثیق کے بغیر لوک آیکت بنا کر ریاست کے اختیارات میں مداخلت کی ہے جبکہ 2-1 سے آئے گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے میں وزیراعلی کے طریقہ کار کی بخیا ادھیڑی گئی ہیں۔ فیصلے میں مودی کی نکتہ چینی میں بھی کہا گیا ہے کہ وہ ریاست میں لوک آیکت قانون میں تبدیلی لا کر چیف جسٹس کو ہی تقرری عمل سے ہٹانا چاہتے تھے۔ سچائی کیا ہے یہ تو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی پتہ چلے گا لیکن اندرونی طور سے ابھی دونوں فریق صحیح لگ رہے ہیں۔ بیشک گورنر مرکز کے نمائندے ہوتے ہیں اس لئے اپنی من مرضی ریاست کی منتخبہ سرکار پر نہیں تھونپ سکتے۔ مودی کو ان ریاستوں سے حمایت مل سکتی ہے جہاں غیر کانگریسی حکومتیں ہیں لیکن آج کی تاریخ میں کرپشن روکنے کے کسی بھی عمل کو روکنے کی کوشش جنتا کو نہیں پسند آئے گی۔ مودی کی لڑائی سیاسی ہے دائرہ اختیارات کے قبضے کا معاملہ ہے وہ کرپشن کو روکنے کے خلاف نہیں دکھانا چاہئے۔ دلچسپ یہ بھی ہے کہ جو بھاجپا مضبوط لوکپال کی وکالت کرتی نظر آتی ہے اور جس نے متعلقہ بل میں ایک ترمیم یہ بھی تجویز کی تھی کہ لوکپال کے انتخاب میں مرکزی حکومت کا رول کم کیا جائے۔ وہ اس بات کو لیکر ناراض رہی ہے کہ گجرات میں لوک آیکت کی تقرری ریاستی حکومت کی مرضی سے کیوں نہیں کی گئی۔ کیا پارٹی یہ چاہتی ہے کہ لوک آیکت کون ہو ، اور اس کے اختیارات کیا ہوں ، اس کا فیصلہ ریاستی حکومتوں کے اوپر چھوڑ دیا جائے؟ پھرکیا ایسا سسٹم کرپشن کو روکنے میں پائیدار ثابت ہوسکتا ہے؟Anil Narendra, Daily Pratap, Gujarat, Lokayukta, Narender Modi, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں