سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر کنٹرول کا سوال


Published On 17th January 2012
انل نریندر
سوشل سائٹ پر کنٹرول کرنے کے لئے حکومت نے کمر کس لی ہے۔ فیس بک گوگل سمیت 21 سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ لے لیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ مرکزی حکومت نے جمعہ کے روز پٹیالہ ہاؤس کورٹ کو بتایا کہ ان کے خلاف کارروائی کی مناسب بنیاد موجود ہے۔ ان پر مختلف طبقوں کے درمیان نفرت پھیلانا اور قومی سالمیت کو خطرہ پہنچانے سے متعلق قابل اعتراض مواد ڈالنے کا الزام ہے۔ مرکز کے رخ کے بعد کورٹ نے سبھی ویب سائٹوں کے نمائندوں کو13 مارچ کو شخصی طور پر حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔اگر ان ویب سائٹوں کی مقبولیت کی بات کی جائے تو چونکانے والے اعدادو شمار سامنے آئیں گے۔ مثال کے طور پر ای میل کے کھیل میں 1 ارب 88 کروڑ یوزرس دنیا بھر میں ہیں۔ انہوں نے تقریباً1100 کھرب ای میل پچھلے ایک سال میں کئے ۔ یومیہ اوسطاً29 ارب 40 کروڑ ای میل جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں پچھلے ایک سال تک 25 کروڑ5 لاکھ ویب سائٹیں موجود تھیں۔25 ارب ٹوئٹس پچھلے سال سوشل سائٹ پر کئے گئے۔ غیر دھارمک اور غیر سماجی مواد ہٹانے پر آنا کانی کررہی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹوں پر بھارت میں مقدمہ چلانے کا راستہ صاف ہوجانے کے بعد سوال یہ اٹھ رہا ہے کیا یہ ممکن ہے بھی یا نہیں؟ پوسٹ ہونے والے مواد کے معنی کے لئے ویب سائٹ منتظمین کو اڈیٹروں کی فوج کی ضرورت ہوگی۔ اگر عدالتوں میں کیس چلانا ہوگا تو یہ یقینی کرنا ہوگا کہ قانونی نکتہ نظر سے مقدمہ جیتنے کے لئے موزوں ثبوت ہیں یا نہیں۔بھاری مقدارمیںآنے والے مواد کو سینسر کرنے کے لئے بڑی تعداد میں لوگوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسی تکنالوجی ایجاد کرنی ہوگی جو اس کام کو آسان کرے۔ اس کا ایک متبادل یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انٹر نیٹ کے ایڈیشن بن جائیں۔ جس میں ایک صبح کا ہوگا اور ایک شام کا۔ سرکار کا خیال ہے کہ یہ قدم اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ کئی ویب سائٹوں پر ایسی اطلاعات بھی شیئر ہوتی ہیں جن سے ملکی مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ فحاشی اور تشدد سے متعلق میٹر انٹر نیٹ پر آسانی سے دستیاب ہے۔ یہ آسان پہنچ بچوں کے لئے بری ثابت ہورہی ہے۔ انٹر نیٹ پر اطلاع کا اثر فوراًہوتا ہے۔ ہم نے مشرقی وسطیٰ میں دیکھا کہ کئی ملکوں میں تختہ پلٹ انٹر نیٹ کے ذریعے مددگار ثابت ہواہے۔ گمراہ کن معلومات، معیشت کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والوں کو شخصی سکیورٹی ،عزت و احترام قائم رکھنے کے لئے بھی ویب سے سینسر شپ ضروری ہے۔ گوگل اور فیس بک کے میٹر کی نگرانی کے بجائے ابھی صرف شکایت پر ہی کارروائی کرتے ہیں۔ اس کے لئے امریکہ کے سلیٹن ویلی میں واقع دفتر میں بڑی تعداد میں ملازمین تعینات ہیں۔ وہ قابل اعتراض مواد جس کی شکایت کی جائے پر کارروائی کرتے ہیں۔ کئی دنیا کے ملکوں پر انٹرنیٹ میٹر پر سخت قانون بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ میں بھی سبھی الیکٹرانک کمیونی کیشن کنٹرول سینٹرل کمیونی کیشن کمیشن کرتا ہے۔انٹر نیٹ بھی اسی کے تحت ہے۔فحاشی مواد پر جیل جانے کی شق موجود ہے۔سنگا پور نے براڈ کاسٹنگ اتھارٹی بنائی ہے جو انٹر نیٹ سینسر شپ کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ قاعدے توڑنے پر لائسنس منسوخ کرنے کی بھی اجازت ہے۔ پراکسی سرور کا استعمال کر کچھ ویب سائٹ کو پوری طرح سے بند رکھا گیا ہے۔ یہ ہی حال میں جرمنی نے ملٹی میڈیا قانون بنایا ہے جس کے تحت فحاشی مواد کے ساتھ سیدھا تعلق والی باتوں پربھی سینسر شپ لگائی گئی ہے۔ فرانس میں ویب سینسر شپ کے لئے فرانس منیٹیل کے بنائے ایک عمل کی میکنزم کو اپنایا جارہا ہے۔ اس کے تحت انسپکٹر یہ دیکھیں گے کہ انٹرنیٹ پر دستیاب مواد فرانس ٹیلی کام معاہدے کے مطابق ہے یا نہیں؟ چین۔ پاکستان میں بھی انٹرنیٹ پر کنٹرول کرنے کے لئے سخت قانون ہے۔ اس پابندی کے تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ سرکار کا یہ قدم سینسر شپ ہے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کی نیت سے پہلا قدم ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں چاہے وہ انا کی تحریک رہی ہو یا ٹو جی اسپیکٹرم جیسے گھوٹالے ہوں، سرکار کی انٹرنیٹ کے ذریعے ساری دنیا میں ساکھ خراب ہوئی ہے۔ سرکار اپنی خامیوں کو اجاگر ہونے اور پروپگنڈے سے پریشان ضرور ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ آتنکی نیٹ ورک اس ذرائع کا اپنے مقاصد کی تکمیل میں استعمال کررہے ہیں۔ اگر اسے قومی سلامتی سے جوڑا جائے تو جائز ہی لگتا ہے لیکن اس سے بھی منہ نہیں موڑا جاسکتا انٹرنیٹ سے کروڑوں لوگوں کو بہت فائدہ بھی ہوا ہے۔اگر آتنکی، فحاشی و مذہب کے خلاف پرچار کو چھوڑدیا جائے تو انٹرنیٹ نے عام آدمی کی ذاتی زندگی کو بھی متاثر کیا ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Delhi High Court, Facebook, Google+, Social Networking Sites, Twitter, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟