جنرل وی کے سنگھ نے بنائی ایک نئی تاریخ


Published On 19th January 2012
انل نریندر
بدقسمتی دیکھئے کے دونوں پڑوسی ملکوں میں زمینی فوج کے سربراہ سرخیوں میں ہیں۔ اگر بھارت میں فوج کے سربراہ جنرل وی کے سنگھ بنام حکومت ہند لڑائی کھل کر آمنے سامنے آگئی ہے تو پڑوسی ملک پاکستان میں زمینی فوج کے جنرل اشفاق کیانی کی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت کے درمیان اقتدار کی لڑائی سرخیوں میں چھائی ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جنرل سنگھ ایک شخصی مسئلے پر حکومت سے لڑ رہے ہیں تو جنرل کیانی اقتدار کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ خیر ہم بات کرتے ہیں اپنے جنرل وی کے سنگھ کی۔ جنہوں نے آخر وہ کام کردیا ہے جو بھارت کی تاریخ میں پہلے کبھی کسی نے نہیں کیا تھا۔ وہ بھارت سرکار کے خلاف عدالت میں چلے گئے ہیں۔ اپنی تاریخ پیدائش کے دعوے کو مسترد کئے جانے کے ڈیفنس وزارت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے انہوں نے پیر کے روز سپریم کورٹ میں عرضی دائرکردی ہے۔دیش کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب کسی فوج کے سربراہ نے سرکار کے فیصلے کو عدالت میں چنوتی دی ہے۔ ڈیفنس وزارت نے حال ہی میں فوج کے چیف کی اس دلیل کو خارج کردیا تھا کہ وہ 1951ء میں پیدا ہوئے تھے1950ء میں نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اپنی عرضی میں جنرل سنگھ نے کہا کہ عمر تنازعہ ان کے لئے عہد کا نہیں بلکہ عزت اور ایمانداری کا معاملہ ہے کیونکہ وہ 13 لاکھ فوجی جوانوں والی فورس کی قیادت کرتے ہیں۔ معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ چکا ہے اس لئے معاملے کی دلیلوں، حقائق پر غور نہیں ہوسکتا لیکن موٹے طور پر الجھن یہ ہے کہ فوج کی ان فائلوں میں جنرل سنگھ کی دو الگ الگ یوم پیدائش درج ہے۔ جہاں ان کے میٹرک کے سرٹیفکیٹ اور دستاویزوں میں یہ تاریخ 10 مئی1951 ہے۔ ڈیفنس وزارت نے ان کی خدمات کو زیادہ تر موقعوں پر اسے قبول کیا ہے۔ دوسری جانب نیشنل ڈیفنس اکیڈمی کے داخلہ فارم میں ان کی یوم پیدائش10 مئی1950 ء بتائی گئی ہے۔ فوج کی ایگزیکیوٹ برانچ کے مطابق فوج کے سربراہ جنرل وی کے سنگھ کی تاریخ پیدائش10 مئی 1951ء ہے جبکہ فوج کے سکریٹری برانچ کے مطابق یہ10 مئی 1950ء ہے ۔ اس سے نہ صرف جنرل سنگھ کے عہدہ میعاد میں ایک سال کا فرق پڑتا ہے بلکہ ان کے جانشین کے لائن میں بھی بڑی تبدیلی ہوسکتی ہے۔ یہ بہت بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک زمینی فوج کے چیف کو اپنی بات منوانے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ یہ اس یوپی اے سرکار کے معاملے سے نمٹنے کے قدم کی ایک اورپیچیدہ مثال ہے۔ سرکار کو معاملہ یہاں تک پہنچنے نہیں دینا چاہئے تھا۔ جنرل سنگھ کے سپریم کورٹ جانے سے نہ صرف یہ صاف ہوگیا ہے کہ سرکار اس کا قابل قبول حل تلاش کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ یہ بھی صاف ہوگیا ہے کہ اپنے برتاؤ کے مطابق اس نے ایک اور متنازعہ معاملے کو لٹکائے رکھا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اس تنازعے کا نپٹارہ چاہے جیسے بھی ہو ہر کوئی یہ محسوس کرے گا کہ اعلی سطح کے فوجی افسر کی عمر کو لیکر ایک تو کوئی تنازعہ کھڑا نہیں ہونا چاہئے تھا، اگر وہ کھڑا بھی ہوا تو اس کا حل خیرسگالی طریقے سے ہونا چاہئے تھا۔ وہیں جنرل وی کے سنگھ کے سپریم کورٹ جانے پر اس دلیل کو اہمیت دینا مشکل ہے کہ عام ہندوستانی شہری کی طرح وہ بھی عدالت جا سکتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ زمینی فوج کے سربراہ کے ذریعے ں سرکار کو سپریم کورٹ میں کھینچنے کا بن گیا ہے۔ یہ زیب نہیں دیتا کہ تاریخ پیدائش کو لیکر ہی صحیح زمینی فوج کے سربراہ اور سرکار سپریم کورٹ میں آمنے سامنے ہوں گے۔ بھلے ہی یہ لائن کھینچنے کی کوشش کی جائے کہ جنرل سنگھ عام شہری ہیں اور اسی نیت سے وہ عدالت گئے ہیں لیکن حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ وہ13 لاکھ فوج کے ملازمین کی سربراہی کررہے ہیں۔ ہندوستانی زمینی فوج کے سب سے بڑے افسر ہیں۔ جہاں اس معاملے سے فوج اور سرکار دونوں کی ساکھ اورحوصلے پر اثر پڑے گا وہیں سیاسی نکتہ نظر سے کانگریس کو اس کے مضر اثرات سے بچنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ سرکار کی غلطی کا کہیں کانگریس پارٹی کو سیاسی نقصان نہ ہوجائے۔ پانچ ریاستوں کے چناؤ سر پر ہیں۔ پنجاب ۔ اترا کھنڈ جیسی ریاستوں میں جہاں سے بہت فوجی آتے ہیں، جہاں بہت ریٹائرڈ فوجی رہتے ہیں اس کا کیا اثر پڑتا ہے یہ کانگریس کے حکمت عملی سازوں کے لئے تشویش کا سبب بن سکتا ہے۔ اس واقعہ سے چناؤ کے ذات پات کے تجزیئے بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Geelani, General Kayani, General V.k. Singh, Indian Army, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟