آئی ایس آئی بھی چلا رہی ہے ایک ریزرو بینک آف انڈیا


Published On 18th January 2012
انل نریندر
ایک ریزروبینک بھارت میں ہے اور لگتا ہے کہ ایک ریزرو بینک آف انڈیا پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے چلا رہی ہے۔ ریزرو بینک سے میری مراد جعلی نوٹوں دھندہ ہے۔ اصل نوٹ بھارتیہ ریزرو بینک چھاپتا ہے تو نقلی نوٹ آئی ایس آئی چھپوا کر ہندوستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کیلئے بھجواتی ہے۔ گذشتہ جمعہ کو دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے نقلی نوٹوں کی ایک بڑی کھیپ سیتا پور سے پکڑی۔ پولیس نے نقلی نوٹوں کی اس کھیپ کے ساتھ دو لوگوں کو بھی گرفتار کیا ہے ذیشان خان و عیش محمد نام بتائے جاتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان دونوں سے قریب دو کروڑ 24 لاکھ50 ہزار روپے کے نقلی نوٹ برآمدہوئے ہیں۔ پولیس کو پچھلے دو ماہ سے خفیہ ایجنسیوں سییہ خبر مل رہی تھی کہ اترپردیش کے ضلع پربد نگر کا رہنے والا اقبال عرف کانا نقلی نوٹوں کا نیٹ ورک چلا رہا ہے۔ وہ پاکستان میں کہیں روپوش ہے۔ پولیس کا کہنا ہے یہ نقلی نوٹ بہت اچھی کوالٹی کے چھپے ہوئے ہیں اور بتانا آسان نہیں کہ کونسا اصلی کونسا نقلی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں جب موسٹ وانٹڈکانا نے بھارت میں نقلی نوٹوں کی کھیپ بھیجی ہو۔ اس سے پہلے بھی وہ سال2010ء میں ایک ترکی شہری کو قریب ڈیڑھ کروڑ روپے کے نقلی نوٹوں کے ساتھ دہلی بھیج چکا ہے۔ پولیس کا دعوی ہے کہ یوپی کے پربد نگر میں واقع کیرانا گاؤں کا رہنے والا اقبال کانا اس وقت پاکستان کے شہر کراچی میں موجود ہے اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اشارے پر ڈی کمپنی و لشکر طیبہ کے ساتھ مل کر بھارت کے مختلف حصوں میں نقلی نوٹوں کو بھیجنے میں جٹا ہوا ہے۔ پولیس نے پایا کہ ان نقلی نوٹوں میں ریزرو بینک آف انڈیا کے سبھی چھ ضروری پیمانے جیسے مائیکرو پرنٹنگ، واٹر مارک آف گاندھی جی، سوفیصد کارٹن پیپر، امبوسس ٹکنالوجی، الیکٹروایڈ واٹرمارکنگ و دھاگے کا استعمال کیا گیا ہے۔ نوٹوں کو دیکھ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ انہیں کراچی کے سرکاری پریس میں چھاپا گیا ہوگا۔ پولیس نے بتایا جن کپڑوں کے تھان میں چھپا کر یہ جعلی نوٹوں کی کھیپ دہلی بھیجی گئی ہے ان پر سبھی تھانوں پر چھپی مہر پاکستان کے فیصل آباد ضلعوں کی ملی ہے۔ ان میں سفاری ٹیکسٹائل مل فار اسٹار صدیقی پروسسنگ مل، مہارانی کلکشن، کوہینور سوٹنگ وعثمان نعیم فیبرک مل شامل ہیں۔ ان نقلی نوٹوں کو بھارت میں بیچنے کی کمیشن کچھ اس طرح ہے 10 لاکھ روپے کے فرضی نوٹ پر 40 ہزاراور 50 لاکھ پر 1 لاکھ روپے کمیشن کا وعدہ ہے۔ آئی ایس آئی نے پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں یہ چال چلی ہے۔ خفیہ ذرائع کے مطابق آئی ایس آئی کا ٹارگیٹ قریب تین سے چار کروڑ روپے کے فرضی نوٹوں کو بھارت کی مارکیٹ میں کھپانے کی نیت و ارادہ ہے۔ یہ نوٹ نیپال، بنگلہ دیش سرحد کے علاوہ پنجاب اور کشمیر کے راستے سے بھارت آتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے کراچی، کوئٹہ، پیشاور اور لاہور کے علاوہ نیپال کی تراہی سے جاری نوٹوں کی چھپائی دن رات چل رہی ہے۔ آئی ایس آئی کو بھارتیہ نوٹوں میں استعمال ہونے والی سیاہی بھی ہاتھ لگ گئی ہے جس سے جعلی نوٹوں کو پہچاننا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ آئی ایس آئی کے اس کام کو انجام دینے میں داؤد ابراہیم بھی پوری مدد کررہا ہے۔ اس کام کا ذمہ آئی ایس آئی کے میجر صادق حسین اور میجر اے اصغر ، اقبال رانا اور مہروالنساء کو دیا گیا ہے۔ میجر اصغر کے رشتے دار جہاں اترپردیش میں رہتے ہیں وہیں مہر النساء کے رشتے دار بہارمیں رہتے ہیں۔ ان کا پلان نقلی نوٹوں کو نیپال سے بہار،اترپردیش اور بنگلہ دیش کے راستے بہار بھیجنے کا ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کی سرحد سے لگے پنجاب اور کشمیر کے راستے سے بھی فرضی نوٹوں کی کھیپ پہنچائی جائے گی۔ اس کھیل میں آئی ایس آئی نے کافی احتیاط برتی ہے۔ ان چاروں راستے سے بھارت میں نوٹوں کی جو کھیپ آئے گی اس کے لئے ہر راستے کے لئے چار ٹولیاں بنائی گئی ہیں۔ ہر ٹولی میں 9 لوگ ہوں گے جن میں چار عورتیں ہیں۔ ہر ایک ٹولی کو کور کرنے کے لئے ایک ٹولی ہوگی۔ داؤد ابراہیم کا نیٹ ورک بھی اس کام میں مدد کررہا ہے۔ بھارت کی وزارت مالیات کی فائننشل انٹیلی جنس یونٹ کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ 500 روپے کے نقلی نوٹ تیار کئے جاتے ہیں۔ نقلی نوٹ لین دین کی کل قیمت 60.74 فیصدی500 روپے کے نوٹ کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ویسے بازار میں 1000 کے نوٹ کا چلن بڑھنے کے ساتھ ہی ان کے نقلی نوٹوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جعلی نوٹوں کی برآمدگی یقینی طور پر تشویشناک ہے۔ معاملہ تب اور سنگین ہوجاتا ہے جب یہ سامنے آتا ہے کہ برآمد کئے گئے یہ نقلی نوٹ دیکھنے میں اصلی نوٹ جیسے لگتے تھے اور انہیں بھیجنے والا پاکستان ہے۔ آئی ایس آئی اپنی حرکتوں سے باز آنے والا نہیں، ہمیں ہی چوکس رہنا پڑے گا۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Fake Currency, ISI, Pakistan, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟