پنجاب میں کانٹے کی ٹکر میں تیسرے مورچے کا کردار اہم ہوسکتا ہے


Published On 20th January 2012
انل نریندر
پنجاب کے نائب وزیر اعلی و شرومنی اکالی دل کے صدر سکھبیر سنگھ بادل نے فاضلکا میں ایک میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے ورکروں اور لیڈروں کو ہدایت دی کہ وہ اکالی ۔ بھاجپا اتحاد کے امیدواروں کی پوری حمایت کریں۔ اتحاد کے امیدواروں کی حمایت نہ کرنے والوں کو پارٹی سے باہر کردیا جائے گا۔ وہ ایتوار کو فاضلکا میں بھاجپا امیدوار و وزیر ٹرانسپورٹ سرجیت جیانی کی حمایت میں ریلی کو خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے ساتھ ہی آزاد امیدواروں کو بھی خبردار کیا اور کہا کہ جو آزاد امیدوار ورکروں کو دھمکائیں گے ان سے پنجاب پولیس اور وہ خود نمٹنا جانتے ہیں۔بادل نے کہا کہ کانگریس صدر کیپٹن امریندر سنگھ دی ڈریم سنڈروم (دن میں خواب دیکھنا) سے متاثر ہیں۔ اس لئے وہ شرومنی۔ بھاجپا کو 33 سیٹوں تک محدودرہنے اور کانگریس کے کھاتے میں 75 سیٹیں آنے کا دعوی کررہے ہیں۔ لگتا ہے کیپٹن کو دن میں خواب دیکھنے کی بیماری ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2002ء میں جب پنجاب میں کانگریس کی لہر تھی تب بھی اکالی بھاجپا اتحاد کو48 سیٹیں ملی تھیں اب تو حالات بالکل برعکس ہیں۔
پنجاب کے ووٹر 30 جنوری کو117 اسمبلی سیٹوں کے لئے ووٹ ڈالیں گے لیکن کونسی پارٹی یا اتحاد سرکار بنائے گی اس بارے میں نہ تو حکمراں شرومنی اکالی دل ۔ بھاجپا اتحاد ی پرامیدہے اور نہ ہی کانگریس ۔50 سال پہلے 1966ء میں ریاستوں کی تشکیل کے بعد سے پنجاب صوبے کے عوام نے کسی بھی سیاسی پارٹی کو مسلسل دوسری مرتبہ جتا کر پنجاب میں حکومت کی کمان نہیں سونپی ہے۔ پنجاب کا سیاسی ماحول اس کی پڑوسی ریاست ہریانہ سے میل نہیں کھاتا کیونکہ ہریانہ آیا رام گیا رام کے سبب پورے ملک میں بدنام ہوچکا ہے۔ وہاں سرکار بنانے کے لئے ممبران کی خریدو فروخت کا بھی ماحول نہیں ہے۔ چاہے کانگریس ہو یا اکالی اتحاد ہو۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بار پنجاب میں اکالیوں کی چناوی نیا بھاجپا کے بھروسے ہے۔ ریاست میں بھاجپا کی حالت کافی پتلی ہے۔ اگر پارٹی پچھلی بار کے مقابلے میں آدھی سیٹیں بھی جیت پانے میں کامیاب رہتی ہے تو اکالی محاذ کی حکومت بن سکتی ہے۔ ویسے ریاست میں کرپشن ،کالی کمائی یا لوکپال چناوی اشو نہیں بن پائے ہیں۔تازہ جائزے کے مطابق کانگریس کے ساتھ اکالی۔ بھاجپا محاذ میں کانٹے کی ٹکرہے۔ اگر بھاجپا کو 10 سیٹیں بھی حاصل ہوگئیں تو اتحادی حکومت بنانے کی پوزیشن میں آسکتا ہے۔پچھلی مرتبہ بھاجپا کو19 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی تھی اس مرتبہ ایک دوسرا فیکٹر تیسرا مورچہ بھی ہوگا جسے سانجھہ مورچہ کا نام دیا گیا ہے۔ اکالی ۔ بھاجپا اتحاد اور کانگریس دونوں پارٹیوں کے لئے پنجاب کے سابق وزیر مالیات منپریت بادل ایک ایسی سیاسی شخصیت بن گئے ہیں جنہیں وہ نہ چاہ کر بھی اپنے کندھوں پر لادے اور اپنا اپنا سیاسی داؤ بنا رہے ہیں۔ منپریت بادل پرکاش سنگھ بادل کے بھتیجے ہیں اور سکھبیر کے چچیرے بھائی۔ انہیں اکتوبر2010ء میں وزیر مالیات و شرومنی اکالی دل سے برخاست کیا گیا تو انہوں نے اپنی پیپلز پارٹی آف پنجاب بنا لی اور تب سے وہ چناوی حکمت عملی میں لگے ہوئے ہیں۔ اس سانجھہ مورچے میں پیپلز پارٹی آف پنجاب، لیفٹ پارٹیاں اور چھوٹی موٹی پارٹیاں شامل ہیں۔ سانجھہ مورچے نے سبھی 117 سیٹوں پر چناؤ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور کئی سیٹوں پر مضبوط امیدوار بھی اتارے ہیں۔ غور طلب ہے کہ پنجاب میں ابھی تک نہ تو بہوجن سماج پارٹی اور نہ ہی لیفٹ پارٹیوں کا کھیل بگاڑ سکے۔ بسپا کے بانی کانشی رام پنجاب کے ہی تھے اور یہاں دلتوں کی آبادی قریب 30 فیصد ہے۔ بہرحال مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی بھی سانجھہ مورچہ میں ہے۔ سانجھہ مورچہ آنے والے چناؤ میں کیا رول نبھاتا ہے اس کا پتہ تو چناؤ نتیجے ہی بتائیں گے لیکن کانگریس ۔ اکالی ۔ بھاجپا اتحاد کی کانٹے کی ٹکر میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔اور ہوسکتا ہے کہ تیسرا مورچہ کنگ میکر کے کردار میں سامنے آجائے؟
Akali Dal, Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Punjab, State Elections, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟