یوپی میں ہوگا سوشل انجینئرنگ کا اصلی امتحان
اترپردیش چناؤ میں ہرسیاسی پارٹی کی خودساختہ سوشل انجینئرنگ کا امتحان ہونے والا ہے۔ بسپا چیف مایاوتی نے اسمبلی چناؤ کے لئے پارٹی کے 403 امیدواروں کی فہرست جاری کرتے ہوئے گنانا شروع کیا۔درجہ فہرست ذاتوں88، اوبی سی113، برہمن 74،33 ٹھاکر وغیرہ اور 85 مسلمان وغیرہ غیرہ۔ بسپا کی جانب سے اپنی فہرست میں ذات پات کی تفصیل دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نئی بات یہ رہی کہ بہن جی کی پریس کانفرنس کے کچھ گھنٹوں بعد ہی بھاجپا کی پریس کانفرنس میں پارٹی کے قومی نائب صدر مختار عباس نقوی نے بھی تفصیلات پیش کیں کے اب تک جاری بھاجپا کی فہرست میں کتنی پسماندہ ذاتوں اور درجہ فہرست ذاتوں کی حصے داری کی گئی ہے۔ یہ بانگی اس لئے کہ اترپردیش اسمبلی کا یہ چناؤ ہر پارٹی اپنی سوشل انجینئرنگ اور کافی حد تک منڈل واد سے حوصلہ افزا اقدامات کو آزمانے کے امتحان میدان میں بھی ثابت ہونے جارہے ہیں۔کانگریس پر غور فرمائیے۔ راہل گاندھی کی کمان والے دور میں پارٹی نے اب تک اعلان شدہ325 امیدواروں میں سے 87 او بی سی کے لوگوں کو نمائندگی دی ہے۔ سماجوادی پارٹی کی بیٹ مانے جانے والی مین پوری، ایٹا، فیروز آباد میں پارٹی نے سپا سے ناراض ہوکر نکلے یادوؤں کو ٹکٹ سے نوازا ہے۔ یہ منڈل واد کا ہی اثر مانا جائے گا۔ اب تک اعلان شدہ 325 امیدواروں میں سے بڑی ذاتوں خاص کر برہمنوں کی پارٹی مانی جانے والی کانگریس نے ابھی تک 39 براہمنوں کو ہی ٹکٹ دیا ہے۔ ٹھاکروں کے کھاتے میں51، درجہ فہرست کھاتے میں 82 اور مسلمانوں کو اب تک52 ٹکٹ دئے گئے ہیں۔ اشارہ صاف ہے کہ پسماندہ ذاتوں کے ووٹوں کے لئے گھماسان شباب پر ہے۔ تبھی تو بھاجپا نیتا مختار عباس نقوی نے اپنی پارٹی کے اعدادو شمار دیتے ہوئے فخر کے ساتھ بتایا کہ اب تک اعلان شدہ381 امیدواروں میں پسماندہ کو123 ، درجہ فہرست ذاتوں کے83 امیدوار شامل ہیں۔ سماجوادی پارٹی نے بھی ٹکٹ بٹوارے میں اپنی سوشل انجینئرنگ کا پورا خیال رکھا ہے۔ پارٹی تقریباً400 سیٹوں کے امیدوار اعلان کرچکی ہے اور اس میں اپنے ووٹ بینک مسلم پسماندہ طبقوں کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ پارٹی نے80 مسلمانوں کو میدان میں اتارا ہے۔
چناؤ سے پہلے جائزوں کی سچائی پر اکثر نکتہ چینی ہوتی ہے۔لیکن ایک تازہ سروے ہوا ہے۔ امر اجلا۔سی ووٹر انڈیا ٹی وی کے دوسرے دور کے اوپینین پول کے مطابق اترپردیش میں بہوجن سماج پارٹی۔ سماج وادی پارٹی میں کانٹے کی ٹکر نظر آرہی ہے۔ پنجاب میں اکالی۔ بھاجپا محاذ اور کانگریس میں سخت مقابلہ ہے جبکہ اتراکھنڈ میں بسپا کنگ میکر بننے کی راہ پر ہے۔ سروے کے نتیجوں کے مطابق یوپی میں بسپا اب تک اندازاً 145 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آتی دکھائی دے رہی ہے۔ سپا 138 سیٹوں اور کانگریس 48 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر اپنی جگہ پکی کررہی ہے۔ بھاجپا کو اب تک 41 سیٹیں ملنے کا اندازہ ہے۔
بھاجپا کو چوتھے مقام پر چھوڑ کر کانگریس کنگ میکر ہونے کی طاقت ضرور حاصل کرتی نظر آرہی ہے۔ پردیش کا سورن کانگریس اور بھاجپا کے ساتھ کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ کشواہا معاملے سے بھاجپا کو نقصان ہوتا نظر آرہا ہے اور اس کافائدہ اٹھانے میں کانگریس کافی دلچسپی سے کام کررہی ہے۔مسلم یا تو سپا کے ساتھ ہیں اور جہاں سپا کمزور ہے وہاں وہ کانگریس کے ساتھ ۔ مورتی معاملے سے بسپا کے دلت ووٹر متحد ہوئے ہیں۔ اتراکھنڈ میں پارٹی کی لڑائی کے چلتے کانگریس نے اپنی ابتدائی بڑھت کھو دی ہے۔ یوپی کے برعکس یہاں کانگریس کا کھیل خراب کر بسپا کنگ میکر بنتی جارہی ہے۔وزیراعلی بی ۔ سی کھنڈوری کی اچھی ساکھ کا فائدہ بھاجپا کو ہوتا دکھائی پڑ رہا ہے لیکن وہ پارٹی کو اکثریت کے اعدادو شمار تک شاید ہی لے جا پائے۔ کل ملاکر دلچسپ صورتحال بنی ہوئی ہے۔ دیکھیں یوپی میں سوشل انجینئرنگ کتنی کارگر ثابت ہوتی ہے یا کسی پارٹی کا ذات تجزیہ فٹ بیٹھتا ہے۔
چناؤ سے پہلے جائزوں کی سچائی پر اکثر نکتہ چینی ہوتی ہے۔لیکن ایک تازہ سروے ہوا ہے۔ امر اجلا۔سی ووٹر انڈیا ٹی وی کے دوسرے دور کے اوپینین پول کے مطابق اترپردیش میں بہوجن سماج پارٹی۔ سماج وادی پارٹی میں کانٹے کی ٹکر نظر آرہی ہے۔ پنجاب میں اکالی۔ بھاجپا محاذ اور کانگریس میں سخت مقابلہ ہے جبکہ اتراکھنڈ میں بسپا کنگ میکر بننے کی راہ پر ہے۔ سروے کے نتیجوں کے مطابق یوپی میں بسپا اب تک اندازاً 145 سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آتی دکھائی دے رہی ہے۔ سپا 138 سیٹوں اور کانگریس 48 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر اپنی جگہ پکی کررہی ہے۔ بھاجپا کو اب تک 41 سیٹیں ملنے کا اندازہ ہے۔
بھاجپا کو چوتھے مقام پر چھوڑ کر کانگریس کنگ میکر ہونے کی طاقت ضرور حاصل کرتی نظر آرہی ہے۔ پردیش کا سورن کانگریس اور بھاجپا کے ساتھ کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔ کشواہا معاملے سے بھاجپا کو نقصان ہوتا نظر آرہا ہے اور اس کافائدہ اٹھانے میں کانگریس کافی دلچسپی سے کام کررہی ہے۔مسلم یا تو سپا کے ساتھ ہیں اور جہاں سپا کمزور ہے وہاں وہ کانگریس کے ساتھ ۔ مورتی معاملے سے بسپا کے دلت ووٹر متحد ہوئے ہیں۔ اتراکھنڈ میں پارٹی کی لڑائی کے چلتے کانگریس نے اپنی ابتدائی بڑھت کھو دی ہے۔ یوپی کے برعکس یہاں کانگریس کا کھیل خراب کر بسپا کنگ میکر بنتی جارہی ہے۔وزیراعلی بی ۔ سی کھنڈوری کی اچھی ساکھ کا فائدہ بھاجپا کو ہوتا دکھائی پڑ رہا ہے لیکن وہ پارٹی کو اکثریت کے اعدادو شمار تک شاید ہی لے جا پائے۔ کل ملاکر دلچسپ صورتحال بنی ہوئی ہے۔ دیکھیں یوپی میں سوشل انجینئرنگ کتنی کارگر ثابت ہوتی ہے یا کسی پارٹی کا ذات تجزیہ فٹ بیٹھتا ہے۔
Anil Narendra, BC Khanduri, Daily Pratap, Mayawati, State Elections, Uttar Pradesh, Uttara Khand, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں