مایاوتی کو رائٹ آف کرنا بھاری بھول ہوگی



Published On 29th December 2011
انل نریندر
اترپردیش اسمبلی چناؤ کی تاریخوں کے اعلان سے یوپی کی تمام اپوزیشن پارٹیوں میں جوش آگیا ہے۔ سب اپنی اپنی ہانکنے میں لگ گئے ہیں۔ حکمراں بہوجن سماج پارٹی کو تو انہوں نے مان لیا ہے کہ وہ آنے والے چناؤ میں منہ کی کھا جائیں گی۔لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ مایاوتی کو ایک خاتمہ فورس مان کر چلنا سمجھداری ہوگی۔ اندازے بھلے ہی مایاوتی سرکار کے بارے میں انتظامیہ مخالف ماحول کے لگائے جارہے ہوں لیکن بنیاد پر بسپا اتنی کمزور نہیں ہے جتنی اسے کانگریس، سپا اور بھاجپا مان کر چل رہی ہیں۔ مایاوتی نے اپنی چناؤ تیاریاں ایک سال پہلے سے ہی شروع کردی تھیں۔ صوبے کی سبھی403 سیٹوں پر بسپا نے اپنے امیدوار ڈیڑھ سال پہلے ہی طے کردئے تھے یہ الگ بات ہے کہ بہن جی نے ان میں سے کچھ کو بعد میں بدلا ہے۔ کانگریس ، سپا اور بھاجپا کوتو اپنے امیدوار فائنل کرنے میں ہیں بھاری دقتیں آرہی ہیں اور ان میں بغاوت کی حالت بنی ہوئی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بہن جی اس بار ووٹروں کے سامنے اپنی کسی ناکامی کا بہانا نہیں بنا پائیں گی۔معجزہ پیش کرتے ہوئے ووٹروں نے 2007 کے چناؤ میں بسپا کو206 سیٹیں دے کر واضح اکثریت دلا دی تھی۔ اسی کے دم پر مایاوتی حکومت نے اپنی میعاد پوری کی ہے۔ جبکہ ان سے پہلے تین سرکاریں نہ صرف اپنی میعاد پوری کرپائیں بلکہ بھاجپا کی حمایت پر ٹکی رہیں۔ اس بار مایاوتی کو پورے پانچ سال تک کام کرنے کی کھلی اجازت ملی ہوئی تھی اس لئے وہ ووٹروں سے اپنے کام کی بنیاد پر ہی ایک اور موقعہ پانے کی اپیل کریں گے۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے بیشک راہل گاندھی اپنے مشن 2012 کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ۔ یوپی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ کانگریس کی زیادہ پوزیشن ہوائی ہے۔2009 کے لوک سبھا چناؤ میں21 سیٹوں پر کامیابی مل جانے سے کانگریس یہ خوش فہمی میں بیٹھی ہے کہ یوپی کے ووٹر آنے والے 1989 سے پہلے کی مضبوط مینڈیڈ پوزیشن میں لادیں گے لیکن کانگریس اس سچائی کو نظر انداز کیسے کرسکتی ہے کہ 2009کے لوک سبھا چناؤ کے بعد جتنے بھی اسمبلی کے ضمنی چناؤ ہوئے ہیں ان میں کانگریس ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی۔ کہیں دوسرے نمبر پر رہی تو کہیں تیسرے نمبر پر۔ شاید یہ جانتے ہوئے کہ پارٹی نے اجیت سنگھ کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ان سے چناوی تال میل کیا اس تال میل سے اجیت سنگھ کی پارٹی کو زیادہ فائدہ ہوگا۔ کانگریس کی پوزیشن تو وہیں کی وہیں رہنے کا امکان ہے۔ مایاوتی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت مسلسل کانگریس پر حملے کررہی ہے۔دراصل وہ چاہتی ہیں کہ ووٹروں کو لگے کہ مقابلہ بس بسپا اور کانگریس کے درمیان ہے۔ بھاجپا اور سپا دونوں کو جان بوجھ کر مایاوتی نظر انداز کررہی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اصل ٹکر بسپا اور سپا کے درمیان ہوگی۔ پچھلے چناؤ میں بسپا کو206 ، سپا کو2 ، بھاجپا کو51، کانگریس کو22 راشٹریہ لوک دل کو 10 سیٹیں ملی تھیں۔ ملائم کو کمزور کرنے کے لئے مایاوتی اسی حکمت عملی پر چل رہی ہیں۔ مسلمان ووٹ یکمشت کسی کو نہ ملے۔ سپا سے ٹوٹ کر یہ یا تو ان کے ساتھ آیا تھا یا پھر کانگریس کے ساتھ چلا جائے۔ ویسے اس بار پیس پارٹی بھی اپنے دم خم کے ساتھ میدان میں اتر رہی ہے۔ یقینی طور سے وہ مسلمان ووٹوں پر منحصر کرے گی۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ مسلم ووٹ یکمشت کسی پارٹی کو شاید ہی ملیں۔ جہاں تک بسپا کے پختہ ووٹ بینک کا سوا ل ہے ہمیں نہیں لگتا کہ یہ کہیں اور جانے والا ہے۔''سرو جن ہتائے سرو جن سکھائے'' کا بہن جی کا نعرہ بھلے ہی بڑی ذاتوں کو راغب کرنے کے اندیشے سے اس بار اتنا کامیاب نہ رہے۔ دلت اور انتہائی پسماندہ طبقات آج بھی ان کے ساتھ ہیں کیونکہ مقابلہ کثیر پارٹی ہوگا اس لئے جس کو بھی مسلم ووٹ یکمشت ملے گا وہی جیت جائے گا۔ لیکن ایک دو علاقے ہیں جہاں ضرور بسپا کمزور پڑرہی ہے۔ پہلا تو ان کی پارٹی میں زبردست کرپشن ہے، جس کے چلتے مایاوتی کو بہت سے وزرا اور موجودہ ممبران اسمبلی کے ٹکٹ اور کرسیاں چھیننی پڑی ہیں۔ اس سے انہیں نقصان ہوسکتا ہے۔ بسپا اپنی سرکار کی بدعنوانی کو معاملوں کی قراردے کر ہلکا کرنے کی کوشش میں ہے لیکن انا کی تحریک کا اتنا اثر ضرور ہوا ہے کہ آج پورے دیش میں ایک بدعنوان مخالف ماحول بن گیا ہے۔ بابا رام دیو بھی اس بار یوپی میں دبا کر پرچار کریں گے۔ اس کا خمیازہ کانگریس کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ کل ملاکر بہوجن سماج پارٹی بیشک آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے سرکار اپنے بوتے پر نہ بنا سکے لیکن اس میں ہمیں تو کوئی شبہ نہیں بسپا یوپی اسمبلی چناؤ2012 میں سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئے گی۔
Ajit Singh, Anil Narendra, Baba Ram Dev, Bahujan Samaj Party, BJP, Congress, Daily Pratap, Mayawati, RLD, Samajwadi Party, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!