سی بی آئی کا سرکار کے چنگل سے نجات پانے کا خواب ٹوٹا


Published On 27th December 2011
انل نریندر
سی بی آئی کے مستقبل کو لیکر حکومت و ٹیم انا اور اپوزیشن آمنے سامنے آگئے ہیں۔ سی بی آئی پر انا ہزارے کی مانگ مسترد کردی گئی ہے۔ حکومت نے اسے لوکپال کے دائرے سے باہر رکھا ہے۔ سی بی آئی کا کوئی آزادانہ مقدمے میں سیدھے طور پر استعمال کے لئے لوک پال کے دائرے میں نہیں رکھا گیا ہے۔ لیکن لوکپال کرپشن سے جڑے کسی معاملے کی جانچ کی سفارش سی بی آئی سے کرسکتا ہے۔ سی بی آئی آزادانہ پینل قائم کرے گا۔ جس میں وزیراعظم اپوزیشن لیڈر، چیف جسٹس شامل ہوں گے۔ سی بی آئی میں ایس پی و ا س سے اوپر کے اعلی افسروں کی مقرر ایک کمیٹی کرے گی۔ اس میں سی بی سی کمشنر، ہوم سکریٹری، محکمہ پرسنل کے سکریٹری شامل ہوں گے۔ سی بی آئی جانچ کے لئے جانچ ڈائریکٹر کا عہدہ بنایا گیا ہے۔ لوکپال کے مجوزہ خاکے میں سی بی آئی میں گہری مایوسی ہے۔اس سے جانچ ایجنسی کی سرکار کے چنگل سے نجات پانے کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لوکپال کے ذریعے سونپے گئے معاملوں میں چارج شیٹ کے لئے پہلے اجازت لینے کی سہولت سے اس کی موجودہ آزادی پر بھی سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ راحت کی بات صرف اتنی ہے کہ تقرری کے عمل میں وزیر اعظم ، اپوزیشن لیڈر اور ہندوستان کے چیف جسٹس کے شامل ہونے سے سی بی آئی ڈائریکٹر کے عہدے کا وقار بڑھ گیا ہے۔ ایک افسر کے مطابق ایجنسی کی مختاری کی بات بے معنی ہے۔ سی بی آئی کے حکام کوترقی یا معذولی سے لیکر چھوٹے چھوٹے خرچ تک کے لئے سرکار کا منہ تاکنا پڑے گا۔ ایسے میں جانچ ایجنسی سے پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے ذریعے بنائے گئے لوکپال کے خاکے پر 6 اعتراضات درج کرائے گئے ہیں۔ اسے لیکر سی بی آئی ڈائریکٹر خود وزیر اعظم سے ملے تھے۔ لیکن ان 6 اعتراضات میں تھے ایک پوری اور ایک ادھوری خامی دور کی گئی ہے۔ سی بی آئی ڈائریکٹر کی تقرری میں وزیر اعظم، اپوزیشن لیڈر اور آئینی ادارے کے چیف کو شامل کرنے کی مانگ پوری کی گئی لیکن ایف آئی آر اور چارج شیٹ داخل کرنے کی مختاری میں جانچ ایجنسی کو سمجھوتہ کرنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے اس کے تحت لوکپال کے ذریعے سونپے گئے معاملوں میں سی بی آئی چارج شیٹ کرنے کے لئے آزادنہ ہوگی۔ سی بی آئی کاکہنا ہے جانچ ایجنسی(پولیس یا سی بی آئی) کے افسر معاملے کی چھان بین کرتے ہیں اور چھان بین کی بنیاد پر تفتیشی افسر اپنی قطعی رپورٹ عدالت میں پیش کرتا ہے ۔ یہ رپورٹ چارج شیٹ یا کلوزر رپورٹ دونوں میں سے کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ آئی او چھان بین کی بنیاد پر یہ طے کرتا ہے کہ چارج شیٹ ہوگی یا کلوزر رپورٹ۔ لیکن لوکپال بل کی دفعہ20(7) میں یہ سہولت شامل کی گئی ہے کہ اس رپورٹ کو کورٹ میں پیش کئے جانے سے پہلے لوکپال کے سامنے رکھا جائے اور وہ طے کرے گا معاملے میں کیا کرنا ہے۔جبکہ لوکپال سے وابستہ شخص پولیس افسر نہیں ہوگا اور اسی طرح یہ سی آر پی سی کی دفعہ173 کے تقاضوں کے برعکس ہوگا۔ سی بی آئی کے مطابق اسے اقتصادی اور انتظامی مختاری کی ضرورت ہے۔ سی بی آئی ابھی بھی سرکار پر اقتصادی اور انتظامی طور پر منحصر ہے۔ اسی سبب لوگوں میں یہ خیال ہے کہ سی بی آئی کو متاثر کیا جاسکتا ہے۔ لوکپال بل میں اس کے بارے میں کوئی بھی سہولت نہیں ہے۔ کل ملاکر لوکپال کے موجودہ اور مجوزہ ڈرافٹسے سی بی آئی میں گہری مایوسی ہے اور اس سے جانچ ایجنسی کے سرکار کے چنگل سے نجات پانے کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔
Anil Narendra, CBI, Daily Pratap, Lokpal Bill, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟