نو سال بعد امریکی عراق سے کھسکے


Published On 25th December 2011
انل نریندر
صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے چھیڑی گئی جنگ کے 9 سال بعد امریکہ کی آخری فوجی ایتوار کی صبح عراق کی سرحد پار کرکویت میں داخل ہوا اور اس کے ساتھ ہی امریکہ کا عراق پر حملہ ایک طرح سے ختم ہوگیا ہے۔ ایک سادہ تقریب میں اپنے فوجی بیڑے کو اتارنے کے ساتھ ہی پچھلے 9 سال سے جاری امریکی فوجی کارروائی کا خاتمہ ہوگیا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ جب امریکی فوجیوں کی آخری ٹکڑی عراق چھوڑ رہی تھی اس وقت عراقی فوجی بیرکوں میں سو رہے تھے۔ جن فوجیوں نے 9 سال تک امریکی اتحاد کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر 'دہشت گردی کے خلاف لڑائی ' لڑی تھی انہوں نے شکر منایا کہ امریکی ان کے دیش سے چلے گئے۔ اب امریکی سفارتخانے پر 100 کے قریب سینک ہی بچے ہیں۔ ایک وقت تھا جب عراق میں 505 ٹھکانوں میں تقریباً1 لاکھ70 ہزار فوجی تھے۔ سارجنٹ ہومان آسٹن نے کویت میں اپنی گاڑی سے نکلنے کے بعد کہا کہ عراق سے نکلنا اچھا لگا۔ سابق صدر جارج بش دوئم کے ذریعے 'وار آن ٹریرر اینڈ ڈسٹکشن آف ماسک آف ماسک ڈسٹکشن کمپین' میں قریب ساڑھے چار ہزار قریبی اور ایک لاکھ عراقی لوگوں کی جانیں گئیں۔ اس کے ساتھ ہی اس خطرناک جنگ نے امریکہ کو دیوالیہ بنوادیا اور امریکہ کے خزانے سے800 ارب ڈالر خرچ ہوئے۔ 17.5 کروڑ عراقی بے گھر ہوگئے۔ امریکی فوجیوں کی واپسی کے ساتھ ہی عراق میں فرقہ وارانہ کشیدگی، تشدد اور سیاسی عدم استحکام کی پریشانی ستا رہی ہے۔ امریکہ اپنی پیٹھ ٹھونک رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع لیون پینیٹا نے کہا کہ امریکی اور عراقی لوگوں کے خون بہانے کے بعد آخر کار عراق کے خود پر حکومت کرپانے اور اپنی سلامتی یقینی کرنے کا مقصد پورا ہوگیا ہے۔ صدام حسین کو تو پھانسی پر لٹکادیا گیا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟پہلے سے زیادہ عدم استحکام ہوگیا ہے اور آج دیش میں سیاسی ٹکراؤ کے حالات بنے ہوئے ہیں۔ عراق میں آج بھی سنی ۔شیعہ لڑائی ، نازک اقتدار میں سانجھیداری، بدعنوانی اور کمزور معیشت کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔ القاعدہ نے عراق کے فالوجا کو اپنا گڑھ بنا لیا ہے اور وہاں امریکی فوج کی واپسی کا باقاعدہ جشن منایا گیا۔ لوگوں نے امریکی جھنڈے جلائے اور اپنے بدعنوانی رشتے دارو ں کی تصویریں ہوا میں لہرائیں۔ صدر براک اوبامہ نے عراقی وزیر اعظم نوری المالکی کو بتایا کہ واشنگٹن اپنے فوجیوں کی واپسی کے بعدبھی اس کا رائل پارٹنر بنا رہے گا۔ آج تک ہمیں یہ نہیں سمجھ میں آیا کہ بش نے آخر عراق پر حملہ کیوں کیا؟ کہا گیا تھا کہ عراق میں صدام کے پاس تباہی کے ہتھیار ہیں اور ان پر قبضہ کرنا ضروری ہے لیکن 9 سال میں امریکہ ایک بھی ایسا ہتھیار یا فیکٹری نہیں دکھا سکا جس سے یہ الزام ثابت ہوتا۔ نہ تو عراق میں کوئی نیوکلیائی ہتھیار ملا اور نہ ہی وہاں کی عوام کو'' نجات'' ملی۔ اس کے برعکس' حملہ آور فوج' کے خلاف عراق میں بغاوت تب تک جاری رہی جب تک آخری غیر ملکی فوجی نے خاموشی سے ملک نہیں چھوڑا۔ کیا امریکہ کو یہ ڈر تھا کہ جاتے ہوئے فوجیوں پرباغی حملہ کردیں گے؟ حقیقی معنی میں امریکہ یہ جنگ جیت نہیں پایا اور نہ ہی اسے سیاسی کامیابی ملی۔ جو امریکہ کے حق میں کھڑے تھے وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ نئے حکمراں جو درپردہ طور سے امریکہ کی مدد سے اقتدار میں آئے تھے زیادہ دنوں تک امریکہ کے مشورے سے بندھے ہوئے نہیں رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عراق کو امریکہ نے گنوا دیا ہے۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ واشنگٹن کبھی بھی بغداد کو جیت نہیں سکا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عراقیوں نے غیر ملکی قبضے کے خلاف لڑائی چھوڑدی ہے۔ کیا یہ مانا جائے کے امریکی فوجی مہم کا بھی وہی حشر ہوا جو ویتنام میں ہوا تھا۔ بیشک آج امریکہ دعوی کرے اس نے یہ جنگ جیت لی ہے لیکن حقیقت یہ ہے امریکہ یہاں بھی جنگ ہارگیا ہے۔ کم سے کم وہ مقصد پورا نہیں کرسکا جس کے لئے وہ عراق گیا تھا۔ عراق کے سامنے شاید آج سب سے بڑی چنوتی دیش میں عدم استحکام لانے کی ہے۔ سیاسی استحکام اور اقتصادی مضبوطی اور یہ کام آسان نہیں ہوگا۔ امریکی فوجی مہم کے سبب پورے مشرقی وسطیٰ میں کٹر واد کو بڑھاوا ملا ہے۔ القاعدہ کو پاؤں پھیلانے کا موقعہ ملا ہے پھر شیعہ، سنی ، کرد لڑائی تیز ہوئی ہے۔ آج عراق میں اقتدار کے کئی مرکز بن گئے ہیں۔دیکھا جائے تو جنگ کے بعد عراقی قوم پرستی کے نام پر کچھ بھی نہیں بچا ہے بلکہ بٹا ہوا سماج چھوڑ کر امریکی بھاگ گئے ہیں۔ امریکی اپنے پیچھے 30 کرور ڈالر کے ہتھیار عراقی فوج کے ممکنہ استعمال کے لئے بھی چھوڑ گئے ہیں کیونکہ انہیں افغانستان واپس امریکہ لے جانے کا خرچ بہت زیادہ ہوسکتا تھا۔ امریکی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صدر براک اوبامہ نے اپنا وعدہ نبھایا ہے۔ اوبامہ نے چناؤ مہم کے دوران انہوں نے عراق جنگ کے خلاف آپریشن چلایا تھا اور 2012 ء کے صدارتی چناؤ کا سامنا کرنے سے کافی پہلے ہی انہوں نے یہ وعدہ نبھادیا۔ امید ہے کہ عراق میں اس خطرناک فوجی آپریشن کے خاتمے سے امریکی معیشت پر بھی مرہم لگے گی۔ اور اس پر جو بوجھ تھا وہ بھی کم ہوگا۔ امریکی تاریخ میں یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ امریکہ نے عراقی فوجی آپریشن میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ جارج برش جونیئر ہیرو تھے یا ویلن؟
Anil Narendra, Daily Pratap, Iraq, Labels: America, Obama, USA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟