لوکپال بل کا یہ حشر ہوگا سبھی کو معلوم تھا
حقیقت تو یہ ہے کہ لوکپال بل کو لیکر نہ تو منموہن سرکار سنجیدہ تھی اور نہ ہی اپوزیشن۔ ہمیں تو لگتا یہ ہے کہ حکومت اور کانگریس پارٹی لوکپال بل کو صرف لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پیش کرنا چاہتی تھی۔ پاس ہو جاتا تو بھی ٹھیک تھا نہ ہوتا تو بھی ٹھیک تھا۔ زور زبردستی سے لوک سبھا میں اس کو پاس کروالیا لیکن آئینی درجہ دلوانے میں وہ نا کام رہی۔ ادھر اپوزیشن کا کبھی بھی ارادہ اسے پاس کرانے اور آئینی درجہ دلانے کا نہیں تھا اس لئے اس نے بحث میں حصہ تو لیا لیکن ووٹنگ کے وقت بٹن نہیں دبایا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور مارکسوادی پارٹی کو لوکپال کے موجودہ خاکے پراعتراض تھا اور اس نے لوکپال کی بنیادی شکل میں کچھ ترامیم چاہیں لیکن حکومت ان ترمیمات کو نہیں مانی اس لئے اپوزیشن نے بل کی حمایت میں ووٹ نہیں دیا۔ کانگریس اب یہ کہہ رہی ہے کہ ہم نے تو لوکپال بل پاس کروادیا ہے لیکن بھاجپا نے حمایت نہ کر اپنے آپ کو بے نقاب کرلیا ہے۔ بھاجپا کا کہنا ہے کہ ایسے بے اثر لوکپال بل کی حمایت کرکے ہمیں اپنی ناک تھوڑی ہی کٹوانی تھی۔ ہم ایسے کھوکھلے لوکپال بل کی حمایت کیسے کرسکتے ہیں؟ کانگریس کامقصد موثر لوکپال لانے کا نہیں تھا وہ تو بس پارلیمنٹ میں اسے پیش کرنا چاہتی تھی تاکہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ میں اس کا پارٹی کوفائدہ ملے تاکہ وہ عوام کے درمیان یہ کہہ سکے دیکھو ہم تو لوکپال لے آئے لیکن بھاجپا نے بٹن نہیں دبایا اور اپنے آپ کو بے نقاب کرلیا ہے۔ لوک سبھا میں جس طرح سرکار کی اس بل کو آئینی درجہ دینے کی کوشش میں کرکری ہوئی اس سے بھی زیادہ کرکری راجیہ سبھا میں ہوسکتی ہے۔ اس ایوان میں تو اپوزیشن کا بول بالا ہے۔ کانگریس اور ان کی ساری ساتھی پارٹیوں کی تعداد 99 بنتی ہے۔ 8 نامزد ہوتے ہیں اور 6 آزار ہوتے ہیں تو اگر ان کو بھی ملالیں تو تب بھی کانگریس کو ہار کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اپوزیشن کے کل ممبروں کی تعداد131 ہے اور ان میں ایسی پارٹیاں ہیں جو کسی بھی حالت میں حکومت کا ساتھ نہیں دے سکتیں اس لئے راجیہ سبھا میں بھی سرکار اس بل کو آئینی درجہ نہیں دلوا سکتی۔ اس پورے معاملے کو کیسے دیکھا جائے؟ ایک نکتہ نظر سے سوائے دو تین نکات کے باقی میں تو کامیابی مل رہی ہے۔ جو کام پچھلے 40 سالوں میں نہیں ہوسکا وہ پہلی بار یہاں تک پہنچا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ٹھیک ہے کہ جس مقصد سے انا ہزارے نے اپنی تحریک چلائی تھی اس کا بھی مقصد پورا نہیں ہوا۔ لوک سبھا میں نمبروں کے کھیل میں اگنی پریکشا کے بعد سرکاری لوکپال کی تصویر بدل چکی ہے۔ ترمیمات کے ساتھ راجیہ سبھا کی مہر کا جنتا کو بے صبری سے انتظار ہے۔ لوکپال اب نہ تو آئینی ادارہ ہوگا اور نہ ہی اس کے ذریعے لوک آیکت کی تقرری ریاستوں کے لئے ضروری ہوگی۔ لوکپال میں ممبران کے خلاف شکایت پر کارروائی کو لیکر لوک سبھا اسپیکر یا راجیہ سبھا چیئرمین کی رپورٹ کے تقاضوں پر سخت احتجاج کے بعد سرکار نے اسے واپس لے لیا۔ بدلے ہوئے تقاضوں کے مطابق وزیر اعظم کے خلاف کسی شکایت کی جانچ شروع کرنے کیلئے 9 نفری لوکپال میں اب دو تہائی ممبروں کی رضامندی ضروری ہوگی۔ پہلے اس کے لئے تین چوتھائی ممبروں کی منظوری کی بات کہی گئی تھی۔ لوکپال بل کا ٹکراؤ کا سب سے بڑا نکتہ رہا لوک آیکت کی تقرری میں ریاستوں کے اختیارات پر قبضے کا۔ صوبوں میں لوک آیکت کے قیام کی پابندی ختم کر اسے متبادل بنانے کی بات بھی سرکار کو ماننی پڑی۔ لوکپال کے دائرے سے مسلح افواج کو بھی باہر کردیا گیا ہے۔ گویا 40 برسوں سے دیش کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہا لوکپال پر اب زیادہ اپوزیشن ٹکراؤ کے موڈ میں نظر نہیں آرہی ہے۔ وہ تو بھلا ہو انا ہزارے اور ان کے انشن کی تحریک کا کہ بدعنوانی پر پہلی بار عام آدمی کے تیور چڑھے اور لوکپال قانون عوام کی آواز کا حصہ بن گیا۔اب سرکار لوکپال بل راجیہ سبھا میں پاس کرانے کے بجائے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا سکتی ہے۔ یہ راستہ بھی سرکار کے لئے آسان نہ ہوگا کیونکہ ایک تو وہ آئینی طور طریقوں کا سوال کھڑا ہوتا ہے اور دوسرے سرکار کی اتحادی پارٹیوں کی ناراضگی بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ یہ عجب ہے کہ خود حکمراں سرکار میں سانجھیدار سیاسی پارٹی لوکپال کے موجودہ شقوں سے متفق نہیں۔ ترنمول کانگریس کو اب لگ رہا ہے کہ یہ بل ریاستوں کے اختیارات پر قبضہ کرنے والا ہے۔ لوکپال کو آئینی درجہ نہ حاصل ہوپانے کیلئے مخالف پارٹیوں میں ناراضی پیدا ہورہی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ حکمراں فریق کو پہلے اس سوال کا جواب دینا چاہئے کہ کیا ان کی ساتھی پارٹیاں پوری طرح اس مسئلے پر ان کے ساتھ ہیں؟ لوک سبھا میں بحث کے رنگ دیکھ کر تعجب ہوا کے دیش کی بنیاد کھود رہے کرپشن کے خاتمے کو لیکر ہمارے جمہوری نظام کے سپریم ادارے اتنی کشیدگی میں کیوں ہیں؟ ایسی دلیلیں گڑھی جارہی ہیں۔ ایک اثر دار لوکپال ہماری جمہوریت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جو توانائی کرپشن کے خاتمے کے انتظام ڈھونڈنے میں لگنی چاہئے اسے انا کی سول سوسائٹی کو نشانہ بنانے میں کیوں خرچ کی گئی۔ یہ بھی تعجب ہوا کہ سخت ہدایات جاری کرنے کے باوجود حکمراں پارٹی کے دو درجن سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ کیسے عین موقعے سے لوک سبھا سے غائب ملے اور اپنی ہی سرکار کی کرکری کروانے کے لئے ذمہ دار بنے۔ ان میں خود کانگریس کے قریب ڈیڑھ درجن ایم پی شامل ہیں۔ دیش جس اشو پر جل رہا ہے اس پر ہمارے نمائندے کیا اتنے غیر ذمہ دار ہیں کہ اسے لوک سبھا میں لوکپال بل پاس ہوجانے کا دباؤ کہیں یا پھر غیر متوقع حمایتیوں کی بھیڑ نہ جٹانے پانے کا اثر۔ بدھوار کو انا ہزارے نے اپنا انشن بیچ میں ہی توڑدیا۔ یہ ہی نہیں انہوں نے30 دسمبر سے ممبران پارلیمنٹ کے گھروں پر اپنا مجوزہ دھرنا اور جیل بھرو تحریک بھی ملتوی کردی۔ تحریک سے اس طرح پیچھے ہٹنے کو ٹیم انا کا حوصلہ ٹوٹنے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ انا ممبئی میں تین دن کے انشن پر بیٹھے تھے۔ حالانکہ انہیں پہلے ہی سے بخار کی شکایت تھی لیکن وہ اپنے انشن کے فیصلے پر اڑے رہے۔ اس کے بعد کئی بار ان کی حالت کافی بگڑی اور ڈاکٹروں اور ساتھیوں نے ان کا انشن ختم کرانے کیلئے صلاح دی تھی لیکن وہ انکار کرتے رہے۔ بدھ کی شام انا نے اسٹیج پر آکر لوگوں سے خطاب کیا اور اسی دوران اپنا انشن توڑنے کا اعلان کیا۔ انا نے کہا ''سنسد میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ہے۔ اب ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے ہم اب نیا پروگرام بنائیں گے اور ریاستوں میں جا کر کرپشن کے خلاف عوامی بیداری مہم چلائیں گے۔ لوگوں کو بتایا جائے گا کہ موجودہ حکومت نے کس طرح دیش کی جنتا کے ساتھ دھوکہ کیا ہے''۔ لوکپال بل کا یہ حشر ہوگا اس کا ہمیں پہلے ہی سے اندازہ تھا۔
Anil Narendra, Anna Hazare, BJP, Congress, Daily Pratap, Lokpal Bill, Manmohan Singh, Parliament, Vir Arjun
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں