پاکستان کے ستائے ہندو کنبوں کو ہندوستان میں پناہ کیوں نہیں؟


Published On 25th December 2011
انل نریندر
گذشتہ ہفتے راجیہ سبھا میں پاکستان میں ستائے ہندو کنبوں کا بھارت آنااور یہاں کی شہریت لینے کا معاملہ اٹھا۔قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں بسے ہندوؤں پر وہاں بہت مظالم اور سختیاں ہورہی ہیں۔ آئین کے اندر اپنی سلامتی کو لیکرکافی پریشان ہیں۔ یہ ہندو کنبے ہندوستانی ویزا پر بھارت آئے تھے۔ لیکن اب یہ چاہتے ہیں کہ اپنے دیش میں ہی رہ جائیں۔ اس لئے انہوں نے سرکار سے ہندوستانی شہریت مانگی ہے۔ دہلی ہائیکورٹ میں اس مانگ کو لیکر ایک عرضی بھی دائر ہوئی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے ان 151 پاکستانی ہندوؤں کو پاکستان واپس بھیجنے پر فی الحال روک لگا دی ہے۔ ان کے ویزا تین مہینے پہلے ختم ہوگئے تھے۔ عدالت نے سرکار سے پوچھا ہے کہ انہیں بھارت کی شہریت کیوں نہ دی جائے؟ سرکار کے پاس فروری تک کا وقت ہے اس سوال کا جواب دینے کا۔ لیکن کیونکہ بھارت سرکار کی اس معاملے میں کوئی طے شدہ پالیسی نہیں ہے اور وہ کیس ٹو کیس ہی فیصلہ کرتی ہے اس لئے ان ڈرے کنبوں میں سرکار کے فیصلے کولیکر خدشہ بنا ہوا ہے۔ ہماری رائے میں تو سرکار کو ایسے معاملوں سے نمٹنے کے لئے کوئی ٹھوس نیتی بنانی چاہئے۔ ہندوستانی نژاد دیش واسی جو بیرونی ملک میں رہتے ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہب کے کیوں نہ ہوں ،اگر وہ بھارت واپس آکر بسنا چاہتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے دینا چاہئے۔ ہو یہ رہا ہے کہ یہ کسی ٹھوس پالیسی کی کمی میں چھوری چھپے غلط راستوں سے واپس آجاتے ہیں اور یہاں ہی رہنے لگ جاتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ایسا پہلے بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ جب1971ء کی بنگلہ دیش جنگ کے بعد لاکھوں بنگلہ دیشی ہندو جنہیں شبہ تھا پاکستانی فوج ان کا قتل عام کرے گی۔ افغانستان میں طالبان کے قہر سے بچنے کیلئے سینکڑوں سکھ پریوار بھارت آئے ہیں۔ تبت میں چینی مظالم سے بچنے کے لئے لاکھوں بودھ بھارت آ بسے ہیں۔ ایسے میں پاکستان سے آئے ہندو کنبے بھارت میں کیوں نہیں بس سکتے۔ ہم بھارت سرکار کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ آج کی تاریخ میں لاکھوں کی تعداد میں بنگلہ دیشی مسلمان بھارت میں آکر بس گئے ہیں۔ یہ سب غیر آئینی طریقے سے بسے ہوئے ہیں ان کے راشن کارڈ بھی بن گئے ہیں شناختی کارڈ بھی بن گئے ہیں اور بھارت سرکار میں اتنی ہمت نہیں کہ انہیں باہر نکال سکے۔ کئی مرتبہ عدالتوں میں بھی یہ معاملہ اٹھا ہے لیکن ہر بار دو چار بنگلہ دیشیوں کو نکالنے پرکارروائی رک جاتی ہے۔ ہماری سرکار سے درخواست ہے کہ قسمت کے مارے ان 151 ہندوکنبوں کو جو پاکستان سے اجڑ کر آئے ہیں انہیں بھارت میں بسنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنی زندگی پھر سے شروع کرسکیں۔ بھارت سرکار نے حالیہ برسوں میں بیرونی ممالک میں بسے ہندوستانی نژاد لوگوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ سرکار کی منسٹری آف اوور سیز انڈینز کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ وہ ہی سب سے رابطے میں ہے اورا نکا دکھ درد سمجھتی ہے۔ وزارت ک ایسی پالیسی بنانی ہوگی جس سے بیرونی ممالک میں بسے ہندوستانی اپنی سرزمین سے ہمیشہ جڑے رہیں اور جب وہ واپس آکر یہاں سیٹل ہونا چاہیں تو انہیں ایسا کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ بہت سے غیر ہندوستانی بیرونی ممالک میں کسی نہ کسی مجبوری کے چلتے ہی جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے ہندو، سکھ، مسلم و دیگر کسی بھی مذہب سے وابستہ ہندوستانیوں کا خیر مقدم کرنا چاہئے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Pakistan, Pakistani Hindu, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!