لو بچھ گئی ہے 5 ریاستوں میں چناوی بساط


Published On 27th December 2011
انل نریندر
دیش کی آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے والی اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں بچھ گئی ہے چناؤ کی بساط۔ سنیچر کو چناؤ کمیشن نے پانچوں ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا ہے۔ اترپردیش میں پانچ مرحلوں میں چناؤ ہوں گے۔ یہاں 4-8-11-15-19-23 اور 28 فروری کو چناؤ ہوگا جبکہ اتراکھنڈ اور پنجاب میں ایک ہی مرحلے میں 30 جنوری کو پولنگ ہوگی۔ گوا میں 3 مارچ اور منی پور میں28 جنوری کو پولنگ کرایا جائے گا۔ پانچ ریاستوں کے چناؤ کی گنتی ایک ہی دن4 مارچ کوہوگی۔ چناؤ کمیشن کے ذریعے طے کردہ پانچ ریاستوں کی تاریخوں سے کانگریس پارٹی تو خوش ہوگی۔ اسے مرکزی حکومت کے ذریعے اعلان کردہ حالیہ عوام کو لبھانے والی اسکیموں کا فائدہ ملنے کی امید ہے اور سردی کا موسم ہونے کے چلتے ساگ سبزی اور دوسری غذائی چیزوں کے دام کم ہوجانے کا بھی فائدہ اسے ملتا نظر آرہا ہے۔ منی پور اور گوا جیسے چھوٹے راجیوں میں اسے اقتدار مخالف مینڈیڈ کا سامنا کرنا ہے۔ وہیں پنجاب ،اتراکھنڈ میں وہ حکمراں پارٹیوں کی اکیلی متبادل بن کر سامنے آسکتی ہے یعنی اقتدار مخالف ووٹوں کا اسے براہ راست فائدہ ملے گا۔ اگرچہ منی پور، گوا میں حکومت ہونے پر اسے نقصان ہوتا ہے تو اس کی کچھ حد تک بھرپا ئی وہ پنجاب اور اتراکھنڈ میں کر سکتی ہے۔ منی پور ،گوا کے مقابلے میں یہ دونوں ریاستیں زیادہ سیاسی اہمیت نہیں رکھتیں۔کانگریس صدر تو یہاں تک کہہ چکی ہیں کہ پنجاب، اتراکھنڈ میں ان کی پارٹی اقتدار میں آئے گی۔ اصل سوال تو اترپردیش کا ہے۔ یہاں کسی طرح کھوئی ہوئی اپنی زمین واپس حاصل کرنے کی کوشش میں لگی دونوں بڑی پارٹیاں کانگریس اور بھاجپا کی چناوی تیاریاں باقی ریاستوں سے پچھڑی ہوئی ہیں۔ خاص طور سے پنجاب اتراکھنڈ میں جہاں دونوں پارٹیوں کا سیدھا مقابلہ ہے یہاں دونوں پارٹیاں ابھی تک اپنے امیدواروں کا انتخاب تک نہیں کرسکیں۔ دراصل چناوی کلینڈر کے لحاظ سے پنجاب ،اتراکھنڈ میں پہلے چناؤ ہونے تھے لیکن سبھی نے بھانپ لیا تھا کہ اترپردیش میں بھی وقت سے پہلے چناؤ ہوسکتے ہیں یہ ہی وجہ ہے ریاست کی دو بڑی پارٹیاں بسپا اور سپا ہوں یا پھر بھاجپا کانگریس سبھی نے اپنی پوری طاقت اترپردیش میں جھونک دی تھی۔ روڈ شو سے لیکرریلیاں ، الزام تراشیاں، داؤ اور ریاست کی بسپا و مرکزکی کانگریس سرکار کے درمیان عوامی فائدے والے اعلانات کی جنگ قریب تین مہینے پہلے ہی سے چھڑ گئی تھی۔ اترپردیش میں28 فروری تک چلنے والے چناؤ کا اثر مرکزی بجٹ کے پروگراموں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ دراصل گوا چناؤ کے سبب تین مارچ تک نافذ چناؤ ضابطے کے دوران ہی بجٹ اجلاس رہے گا اور 29 فروری تک دونوں ریل اور بجٹ پاس کرنا ضروری ہوتا ہے لہٰذا مرکز کو چناؤ ضابطے کی آنچ سے بچنے کیلئے متبادل راستوں کو تلاشنا ہوگا جس میں ممکنہ ریاستوں کے لئے اعلانات کے چلتے یا برعکس حالات میں ریل اور عام بجٹ پیش کرنے کا وقت یا تاریخ بدلنے کے امکان سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی نے ریاست میں چناؤ کی تاریخوں میں تبدیلی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے جنوری میں اتراکھنڈ میں کڑاکے کی ٹھنڈ ہوتی ہے دوسرا30 جنوری کو شہیدی دوس ہوتا ہے ، اس دن چناؤ کرانا ٹھیک نہیں ہیں۔ اتراکھنڈ میں30 جنوری کو ہی پولنگ ہے جبکہ وہاں کی اسمبلی کی میعاد12 مارچ تک ہے۔ اترپردیش کی موجودہ اسمبلی کی میعاد 20 مئی 2012 ء، پنجاب اسمبلی کی 14مارچ، اتراکھنڈ کی 12 مارچ، منی پور کی 15 مارچ اور گوا اسمبلی کی میعاد14 جون تک ہے۔ عام طور پر اتراکھنڈ کے چناؤ فروری اور ماچ کے پہلے ہفتے میں کرائے جاتے ہیں لیکن اس مرتبہ جنوری میں ہی کرائے جارہے ہیں۔ کانگریس نے یوپی میں ساری طاقت جھونکی ہوئی ہے۔ پارٹی کے دونوں سینئر لیڈر سونیا گاندھی ، راہل گاندھی اسی صوبے سے ممبر پارلیمنٹ ہیں اس لئے جم کر محنت کررہے ہیں۔مغربی اترپردیش میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لئے پارٹی نے راشٹریہ لوک دل سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ مسلم ووٹوں کو گھیرنے کیلئے پارٹی نے ساڑھے چار فیصدی ریزرویشن کا کارڈ بھی کھیلا ہے۔ پچھلی بار کانگریس کو12 فیصدی مسلمانوں نے ووٹ دیا تھا اس مرتبہ یہ تعداد بڑھنے کی امید ہے۔ بنکروں کے لئے موٹا اقتصادی پیکیج، کسانوں کے لئے دو بڑی سنچائی اسکیموں کا اعلان مرکزی حکومت کرچکی ہے اس کا فائدہ بھی اسے ملنے کی امید ہے۔ ایسے میں اسے بڑی ذاتوں خاص کر براہمنوں کو بسپا سے توڑنے میں کامیابیملنے کی امید ہے۔ پارٹی کے دونوں پردیش اور ودھان منڈل کے نیتا براہمن ہیں۔ ریتا بہوگنا جوشی اور پرمود تیواری ٹھاکر نیتا کی شکل میں پردیش کے انچارج ہیں۔ دگوجے سنگھ کانگریس کے ایک طبقے کی یہ مراد پوری کردی ہے کہ جلد ہی چناؤ ہوں۔ اس کا اعلان چناؤ کمیشن نے کرکے پورا کردیا ہے۔
ہر برسر اقتدار پارٹی کو اقتدار مخالف فیکٹر کو بنیادی طور سے نمٹنا ہوتا ہے۔ کچھ حد تک بہوجن سماج پارٹی کو بھی نقصان ہوسکتا ہے۔ بہن جی کے ذریعے کافی موجودہ ممبران اسمبلی کو ٹکٹ کاٹنے سے پارٹی میں بغاوت کی پوزیشن بنی ہوئی ہے۔ بسپا کی بنیاد غریب اور کمزور دلت طبقہ ہے۔ اسے آج بھی اس کا پختہ ووٹ مانا جاسکتا ہے۔ کرپشن ، پارک، مورتیاں بنانا بھی بسپا کے خلاف چناوی اشو ہوں گے۔ سپا سپریموں ملائم سنگھ یادو کی پارٹی پہلے سے اچھی پوزیشن میں ہے۔ ان کے نوجوان بیٹے اکھلیش یادو ایک نوجوان لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دوروں سے پارٹی کے لئے اچھا ماحول بنایا ہے۔ انہوں نے اپنی اچھی دھاک جمائی ہے۔ مسلم ووٹوں پر اب بھی ملائم سنگھ کی پکڑ برقرار ہے ، راجپوت بھی ان کے ساتھ ہیں۔ بسپا کا مقابلہ ملائم سنگھ ہی کرسکتے ہیں۔ ایسی ہوا بنا کر سپا کو فائدہ ملنے کی امید ہے۔ ملائم کی ملنسار ساکھ حریفوں کو بھاری پڑ سکتی ہے لیکن ان کی تاریخ ان کے خلاف ضرور رہے گی۔ پارٹی تھانے چلاتی ہے، یہ ساکھ ابھی تک ٹوٹنے نہیں پائی۔ مسلمان ووٹوں کا بٹوارہ طے ہے۔ کانگریس ۔ بسپا میں یہ ووٹ بٹے گا۔ ملائم یہ نہیں مان کر چل سکتے کے مسلم ووٹ ایک طرفہ انہیں ملے گا۔ رہی بات بھاجپا کی پارٹی کو امید ہے کہ مسلمانوں کو ریزرویشن کے اشو پر ان کے حق میں مخالف ووٹ جائے گا اور سورن ووٹ کا پولارائزیشن ہوگا۔ انا ہزارے کی تحریک کا سب سے زیادہ فائدہ اسے ہی ملنے کی امید ہے۔ راجناتھ سنگھ ، کلراج مشر، اڈوانی کے دوروں سے سرکار مخالف ماحول جوڑنا ہے۔ بھاجپا کو امید ہے کہ چناؤ میں پارٹی کو اس کا فائدہ ضرور ملنے والا ہے لیکن ریاست میں مقامی لیڈروں کی اپنی رسہ کشی پارٹی کو بھاری پڑ سکتی ہے۔ کل ملاکر اب جب پولنگ کی تاریخیں اعلان ہوچکی ہیں سبھی کی ریاست کی سیاست میں تیزی آئے گی۔ کانگریس کے لئے جہاں اترپردیش سب سے بڑی چنوتی ہوگی وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے پنجاب ، اتراکھنڈ میں اپنی سرکاروں کو دوبارہ سے برسر اقتدار لانا ہوگا۔ ویسے اتراکھنڈ میں آج تک کوئی حکمراں پارٹی پھر سے اگلی مرتبہ جیت کرنہیں آئی۔ کیا پتہ اس مرتبہ یہ تاریخ بھون چندر کھنڈوری بدل دیں۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Goa, Manipur, Punjab, Rahul Gandhi, Sonia Gandhi, State Elections, Uttar Pradesh, Uttara Khand, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!