منی پور میں تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے !

منی پور میں گزشتہ کچھ دنوں میں الگ الگ جگہ پر ہوئے تشدد میں پانچ شہریوں سمیت دو سیکورٹی جوانوں کی موت ہوئی ہے اس میں سے ایک وشنو پور ضلع کا ہے ۔یہاں مشتبہ ہتھیار بند انتہا پسندوں نے جمعرات کی شام ایک باپ بیٹے سمیت چار لوگوں کو مار ڈالا ،مرنے والوں کی شناخت نتھائے سوچین سنگھ اوئنم باما ایجو سنگھ اور ان کے بیٹے اوئنم منی تومبا سنگھ وغیرہ کی شکل میں ہوئی ہے ۔وہیں بدھوار کی رات امپھال مغربی ضلع کے کانگچپ میں حملہ آوروں نے ایک نتائی اور سریتی گاو¿ں کے گرام محافظ کا قتل کر دیا ۔بدھوار کو ہی مشتبہ انتہا پسندوں نے ٹیگنو دل ضلع میں میانمار سے لگے موریح شہر میں سیکورٹی فورسز پر حملہ کیا تھا اس میں پولیس کے دوجوانوں کی موت ہو گئی تھی ۔تشدد کے ان الگ الگ واقعات میں مارے جانے والے سبھی لوگ میتائی فرقہ کے تھے ۔اس کے بعد راجدھانی امپھال سے لیکر بشنپور جیسے متئی اکثریتی علاقوں میں سیکورٹی انتظام کو لیکر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے ہیں ۔منی پور میں 3 مئی سے رک رک کر ہو رہی جھڑپوں کے دوران پچھلے کچھ دنوں سے امن کا ماحول بنا ہوا تھا لیکن بدھوار کو یورہے شہر سے پھر تشدد شروع ہوا اس نے ریاست میں خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کر دیا ہے ۔منی پور میںقانون نظام کو لیکر سوال اٹھ رہے ۔کیا آخر تازہ تشدد کے پیچھے وجہ کیا ہے ؟ کیوں پچھلے 8 ماہ سے یہاں تشدد رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ؟ پچھلے 8 ماہ میں منی پور کے جن شہری علاقوں میں وسیع پیمانہ پر ہوئے تشدد ، اس میں سرحدی شہر بھی ایک ہے ۔کوکی برادری اکثریتی اس شہر میں تشدد کے دوران متئی لوگوں کے زیادہ تر گھروں جلا دیا گیا تھا ۔اس وقت موریح شہر میں ایک بھی متئی پریوار نہیں ہے ۔یہاں آسام رائفل اور بی ایس ایف کے ساتھ منی پور پولیس کمانڈوں کی تعیناتی کو لیکر احتجاج ہوتا رہا ہے ۔وہاں کوکی برادری کے لوگ منی پور کمانڈوں کو علاقہ سے ہٹانے کی مانگ کرتے آرہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ منی پور پولیس کمانڈو میں متئی فرقہ کے جوان ہیں جس کے سبب وہ لوگ محفوظ محسوس نہیں کرتے ۔ان کا یہ بھی الزام ہے پولیس کمانڈوں کے ساتھ کچھ متئی حملہ آور بھی علاقہ میں آچکے ہیں ۔کوکی برادری کی بڑی تنظیم کوکی انگ پی کے سینئر لیڈر تھانگملن وجین کی مانیں تو اس لڑائی کو روکنے کیلئے بھارت سرکار کی مداخلت ضروری ہے ۔انہوں نے کہا ریاست میں کلی طور پر امن تھا لیکن مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ جی نے کہا تھا کہ پہاڑی علاقوں میں قانون و نظام و ہ خود دیکھیں گے اور وادی والے علاقوں کو بیرن سنگھ سنبھالیں گے ۔اب تشدد اس لئے بڑھ گیا ہے کہ منی پور سرکار متئی فرقہ پولیس کمانڈوکو ہیلی کاپٹر کے زریعے سے موریح بھیج رہی ہے ۔ریاستی سرکار کو امن قائم کرنے کیلئے ان کمانڈوکو واپس بلانے کی ضرورت ہے ۔متئی سماج کے مفادات کیلئے بنی کوآرڈینشن منی پور انٹیگریٹی کے سینئر لیڈر کرین کمار مانتے ہیں کہ مرکز اور ریاستی حکومت منی پور میں حالات کو سنبھالنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے ۔وہ کہتے ہیں سرکار کوکی دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں کر پا رہی ہے ۔کوکی بارڈر ٹاو¿ن موریح پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔میانمار کے باغی ان کوکی دہشت گردوں کے ساتھ مل کر آر پی جی دھماکہ سے حملہ کرررہے ہیں ۔کسی بھی نسلی تشدد میں آر پی جی چلانے کی بات کسی نے نہیں سنی ہوگی ۔ریاست میں امن قائم کرنے کے سوال پر متئی لیڈر کیرن کمار کہتے ہیں پردیش میں امن صرف بھارت سرکار کی مداخلت سے ہی قائم ہوسکتاہے ۔تشدد کو شروع ہوئے 8 ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں ۔بیرن سرکار پوری طرح فیل ہو گئی ہے ۔لوگوں کا قتل کیا جا رہا ہے ۔گھروں کو جلایا جا رہا ہے ۔لیکن منی پور کسی کو بھی فکر نہیں ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!