اب سہارا گروپ کا کیا ہوگا؟

ایک وقت تھا جب سہارا گروپ کے پاس لندن سے لیکر نیویارک تک ہوٹل تھے ،اور اپنی ائر لائنس اور آئی پی ایل سے لیکر بہت کچھ تھا ٹیم تھی یہیں نہیں سہارا گروپ ٹیم انڈیا کو بھی اسپانسر کر تی تھی کمپنی کی پہنچ بلڈنگ تعمیرات سے لیکر مالی سیوائے سٹی ڈولپمنٹ ، میوچیول فنڈ لائف انشورینس وغیرہ سیکٹر تک تھی ۔اس کمپنی کے پاس ایم ڈی ویلی ٹاﺅنس شپ تھی، لکھنو¿ سمیت کئی شہروں میں زمین کی بڑی جائیدایں تھی ،دیش بھر میں ہزاروں ملازم اس کمپنی میں کام کرتے تھے کمپنی کا اپنا میڈیا تھا اپنے شروعاتی دنوں میں سکوٹر پر چلنے والے سہارا شری سبرت رائے سہارا کی پارٹیوں میں سیاسی اور کرکٹر سے لیکر پالی ووڈ سمیت تمام ہستیاں نظر آتی تھی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2009 میں ان کے 2 بیٹوں کی شادی میں 500 کروڑ روپے خرچ کرنے کی بات سنی گئی تھی ان میں 11 ہزار سے زیادہ مہمان شامل ہوئے اور ان کو جہازوں سے لایا گیا تھا ۔وقت بدلتا ہے جب 14 نومبر کو سبرت رائے کی موت ہوئی خبر آئی تب کمپنی کی حالت پہلے سے کافی الگ یعنی کمزور ہے ۔سہارا گروپ اپنی کئی پروپرٹی کو بیچ چکا ہے اور اب کمپنی میں گلیمر نہیں رہا اور کمپنی کی مالی حالت بہت کمزور ہے ابھی یہ صاف نہیں ہے سبرت رائے کے بعد کمپنی کی باگڈور کس کے کندھوں پر ہوگی۔ان کے دونوں بیتے بیرانی ملک میں مقیم ہےں بد کسمتی دیکھئے پتا کی چتا کو مکھ اغنی دینے کے لئے دونوں بیٹے نہیں تھے سنا ہے انہوںنے آنے سے مجبوری ظاہر کر دی تھی اپنے عروج پر چل رہے گروپ سہارا کے 4799 دفاتر اور16 طرح کے کاروبار تھے لیکن نئے ماحول میں گروپ کو بچا پانا مشکل لگتا ہے سبرت رائے نے گورکھپور پالی ٹےکنک سے پڑھائی کرکے ڈپلومہ حاصل کیا تھا سبرت رائے کے والد ایک چینی میل میں کیمیکل انجیئر تھے اور وہ بہت ملن سار شخص تھے ایسا شخص آج کے دور میں ملنا مشکل ہے ۔فائیننس میں آنے سے پہلے سبرت رائے چھوٹا موٹا کاروبار کرتے تھے پہلے انہوںنے نمکین کی فیکٹری لگائی اور نمکین کو پیکج کرکے فروخت شروع کی 70 کی دھہائی کے آغاز میں ایک کمپنی بنارس چٹ فنڈ کے ڈائریکٹر گورکھپور آئے تھے جن سے ان کی ملاقات ہوئی تھی اجئے چٹر جی مہانا 15 روپے پر کمپنی کے ممبر بن گئے اور سبرت رائے کو بھی اس کمپنی کا ممبر بناےا اور کچھ عرصے کے بعد یہ کمپنی سبرت رائے کو مل گئی اس طرح سال 1978 میں سہارا کی شروعات ہوئی جب سبرت رائے ویر بہادر اور ملایم سنگھ یادو جیسے لیڈروں کے قریب آئے کئی لوگوں کے پاس پکے گھر تک نہیں تھے لیکن انہیں ایک اچھے مستقبل کی امید تھی اس کی بنیاد پر وہ اپنی محنت کی کمائی کا ایک حصہ بچاکر سہارا کو دیا کرتے تھے ان کے مستقبل کے لئے ضرورتوں شادی پڑھائی وغیرہ کے لئے پیسے جمع کروا رہے تھے واقف کاروں کے مطابق 80 کی دھہائی میں اسی امید کے بھروسے لاکھوں غریب اور محروم لوگ سہارا سے جڑے ،کمپنی پر بھروسہ اس کے فروغ کا بڑی بنیاد تھا ،سبرت رائے کو سرکاری قوائد میں بھروسہ نہیں تھا سہارا کے لئے پریشانی کا دور اس وقت شروع ہوا جب سہارا کی دو کمپنیوں نے 3 کروڑ سرمایا کاروں سے 24 ہزار کروڑ اکھٹے کئے اور بازار میں لگایا سیبی کی نگاہ اس پر پڑی اور اس کی چیئرمین مادھوری پوری نے کہا کے سہارا کے بانی سبرت رائے کے کی موت کے بعد بھی سرمیا بازار ریگوللیٹری گروپ کے خلاف مقدمہ جاری رکھے گی اور سرمایا کاروں کو وارسی کے لئے سیبی نے کہا سبھی سرمایا کاروں سے پیسا واپس دلانے کے لئے کارروائی جاری رہے گی۔ (انل نرےندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!