پہلی بار کشمیر میں سرگرم دہشت گردوں میں کمی آئی ہے !

یونیسکو نے سری نگر کو تعمیراتی شہروں کے نیٹورک کی فہرست میں رکھا ہے ۔اس سال سری نگر میں کئی کامیاب پروگرام ہوئے جس سے دیش اور بیرون ملک کی سرکردہ ہستیاں شامل ہوئیں ۔پچھلے سال کشمیر میں آتنکی وارداتیں بالکل نہیں ہوئی تھیں ۔حالانکہ اس تہماہی میں آتنکی وارداتیں اچانک برھ گئی ہیں زیادہ تر آتنکی حملے اسکول اور اقلیتوں کو نشانہ بنا کرکے جموں کشمیر سے باہر سے آنے والے ریڑھی پٹری والوں کو بنایا گیا ۔اور نہتہ پولیس غیر ملسح پولیس ملازمیں یا ان کے قریبیوں کو نشانہ بنانے کے لئے حملے ہوئے ۔یہ بڑھتے حملے بتا رہے ہیں کہ ریاست میں حالات ابھی بہتر نہیں ہوئے ہیں ۔آئے دن سیکورٹی فورسز اور شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں ۔پچھلے تین مہینوں میں یہ حملے زیادہ ہوئے ہیں حالانکہ ہماری سیکورٹی فورسز کو بھی گزرے سال اچھی کامیابیاں ملیں ۔پچھلے تین مہینوں میں بیشک یہ حملے زیادہ ہوئے ہوں لیکن دو دن پہلے جنوبی کشمیر کے اننت ناگ اور کلگام ضلع میں دو مڈبھیڑوں میں چھ دہشت گردوں کو مار گرایا ان میں کشمیر ٹائیگر فورس کے خود ساختہ کمانڈر اور دوپاکستانی آتنکی بھی شامل تھے ۔چونکانے والی بات یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کے پاس سے جو ہتھیار ملے وہ امریکہ کے بنے ہوئے ہیں اس سے صاف ہو گیا ہے کہ پاکستان نہ صرف دہشت گردوں کو بھارت میں داخل کرا رہا ہے بلکہ انہیں ہتھیاروں کی بھی سپلائی کررہا ہے ۔وادی میں ڈرون کے ذریعے ہتھیار پہوچانے کے معاملے بھی سامنے آئے ہیں ۔غور طلب ہے اس سال اگست میں افغانستان سے لوٹی امریکی فوج اپنے زیادہ تر ہتھیار وہیں چھوڑ آئی پھر یہ ہتھیار پاکستان کے بازاروں میں بکنے لگے ایسے میں اس بات کے اندیشے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ امریکی ہتھیار اسی کے ذریعے سے دہشت گردوں تک پہوچائے جا رہے ہیں ۔خوش آئیں پہلو یہ ہے کہ دہشت گردی کی شروعات کے بعد سے پہلی بار کشمیر وادی میں سرگرم دہشت گردوں کی تعداد 200سے نیچے آگئی ہے ۔اور لڑکوں کی آتنکی گروپوں میں بھرتی پر بھی لگام لگی ہے ۔اننت ناگ ضلع کے قاضی کنڈ پولیس کے ڈائرکٹر جنرل وجے کمار اور فوج کے لیفٹننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے بتایا کہ ریاست میں سرگرم دہشت گردوں کی تعداد 180رہ گئی ہے ۔ان میں سے دہشت گردوں کی تعداد 100سے بھی کم ہے ۔ان میں سے سیکورٹی فورسز نے 128 میں سے 73کو مار گرایا ہے ۔16پکڑے گئے ہیں اور آتنکی گروپوں میں بھرتی میں بھی لڑکوں کی کمی آئی ہے ۔بہرحال اب تشدد کے نقصان کو نوجوان سمجھنے لگے ہیں کہ سرحد پارسے کیا ہو رہا ہے ۔ابھی بھی 200کے قریب آتنکیوں کی موجودگی کی بات کہی جا رہی ہے ۔جن میں 90دہشت گردوں کا تعلق بیرون ممالک سے ہے ۔یہ حالات بتا رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے جال کو توڑ پانا آسان نہیں ہے ۔بیشک ہماری سیکورٹی فورسز کو کچھ وقت میںقابل قدر کامیابی ملی ہیں لیکن ابھی ہم چین کی سانس نہیں لے سکتے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!