افغانستان میں میڈیا مین جان ہتھیلی پر لیکر چلنے کو مجبور !

صحافت کو جنون کی حد تک لے جانے والے ہندوستانی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کی افغانستان میں طالبانی حملے میں جان چلی گئی جمعرات کی رات پاکستان کی سرحد سے لگے بولڈک ضلع میں طالبانی دہشت گردوں و افغان سیکورٹی فورسز کے درمیان جاری مڈبھیڑ کور کررہے تھے اسی دوران اچانک فائرنگ میں دانش اور افغانی فوج کے ڈپٹی کمانڈر صدیق کرجئی ہلاک ہو گئے ۔صحافت کا ناول کہے جانے والے پدت زر ایوارڈ سے اعزاز یافتہ چالیس سالہ دانش امریکی نیوز ایجنسی رائٹرس کے بھارت میں چیف فوٹو جرنلسٹ تھے ۔سال 2018 میں فیچر فوٹو گرافی کے لئے یہ ایوارڈ حاصل کرنے والے دانش اور ادنان عابدی ہندوستانی تھے دانش تین دن سے بولڈک میں جنگ کور کررہے تھے ۔ا س درمیان گولی لگنے سے زخمی بھی ہوئے ایک افغان کمانڈر نے بتایا طالبانی حملے کے وقت دانش دوکانداوں سے بات کررہے تھے دوسری طرف طالبان ترجمان قاری یوسف نے بتایا کہ رائٹرس نے انہیں نہیں بتایا تھا کہ ان کا جرنلسٹ جنگی زون میں کورکرنے کے لئے گیا ہے ۔ممبئی کے باشندے دانش دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں اکنامکس گریجویٹ تھے اور ماسکوم سے فوٹو گرافی کا کورس بھی کیا تھا ۔دانش کے ساتھ کام کرچکے سبھی این صدیقی نے بتایا جب کوئی رپورٹر رپوٹنگ چھوڑ کر فوٹو جنرلزم کا کیرئیر بناتا ہے تو وہ صرف فوٹو نہیں کھیچتا بلکہ خبروں کو بھی کور کرتا ہے ۔ایسے تھے دانش 2008 میں ہم دونوں دہلی میں ایک ساتھ ٹی وی چینل سے جڑے تھے دانش نے فوٹو گرافی کا جنون تھا ۔2010 میں جب رائٹرسے انٹرن کی شکل میں جڑے تو لمبی بحث ہوئی میں نے کہا کوئی رپورٹر فوٹو گرافر بنتا ہے یا ؟ دانش نے یہ سوال مسترد کرتے ہوئے جو مقام حاصل ہے وہ کسی بھی پتر کار کے لئے فخر کی بات ہے ۔یوں تو دانش نے دنیا کو بہت سارا سچ دکھایا لیکن روہنگیا مسلمانوں کے حالات کو ایسے اجاگر کیا جنہیں امریکہ کا پولٹزر ایوارڈ ملا اس کے بعد میں نے دانش سے کہا تھاتم نے سب کو غلط ثابت کر دیا ۔کورونا کی دوسری لہر میں میں نے ان کے فوٹو انٹرنیشنل پبلک سنشائن میں دیکھ کر مبارکباد دی تو جواب آیا کہ یہی تو ہماری زندگی ہے ۔افغانستان میںجس طرح کے حالات ہیں ان میں ویسے ہی میڈیا سے جڑے لوگوں کے لئے کام کرنا جان ہتھیلی پر لیکر چلنا ہے تین مہینہ پہلے طالبان میں جلال آبادمیں ریڈیو ٹی وی میں کام کرنے والے تین لیڈیز جرنلسٹوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا جسے دس مہینوں میں 20 سے زیادہ میڈیا ملازم طالبان کی گولیوں کا شکار ہو چکے ہیں دنیا میں میڈیا ملازمین کے لئے سب سے زیادہ خطرناک دیش مانے جاتے ہیں ۔افغانستان بھی انہیں میں سے ایک ہے ۔دانش صدیقی کا قتل افغانستان اور دنیا کے لئے ایک مثال ہونی چاہیے ۔اور اب سمجھ میں آگیا ہے کہ انسانیت کے دشمنوں کو پہچان کر ٹھکانے لگایا جائے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟