کسانوں کے مسئلے کا حل ہونا چاہیے!

حکومت نے منگل کو کہا مختلف اسکیموں کے تحت مرکز و ریاستوں کی ایجنسیوں کے ذریعے کم از کم ویلو مالیت یعنی ایم ایس پی پر اناج کی خرید کی جارہی ہے ۔لیکن کسان انجمنوں کو تینوں نئے زرعی قانون کو منسوخ کرنے پرزور دین کے بجائے زرعی قوانین کے حصوں پر ان کی تشویش کو لیکر بحث ہونی چاہیے ۔تاکہ ان کا حل نکالا جا سکے ۔لوک سبھا میں منیش تیواری اور دیگر کے سوال کے تحریری جواب میں زرعی وکسان بہبود وزیر نریندر تومر نے یہ بات کہی ممبران نے مرکزی قوانین کا تذکرہ کرتے ہوئے سوال پوچھا تھا کہ کیا کسانوں کی مانگوں کو پوراکرنے کے لئے مرکزی سرکار کے ذریعے قانون کی مختلف تجاویز پر غور کیا جارہا ہے ؟ اس پر وزیر زراعت نریندر تومر نے بتایا کہ زرعی قوانین نے جڑے مسئلوں کے حل کے لئے سرکار اور کسان انجمنوں کے درمیان ابھی تک گیارہ دور کی بات چیت ہوئی ہے اس آندولن کو آٹھ مہینہ سے زیادہ ہو گئے ہیں کسانوں کا اب تک جو جذبہ دیکھنے کو ملا ہے اسے دیکھتے ہوئے تو لگتاہے کہ کسان پارلیمنٹ کے باہر جمع ہوئے بغیر نہیں مانیں گے اس دوران پتہ چلا ہے کہ کسان اب جنتر منتر پر باری باری سے دھرنا دے رہے ہیں ۔وہیں پولیس کو کسانوں کے فیصلے سے راحت ضرور ملی ہے ۔کیوں کہ پارلیمنٹ کے گھیراو¿ کی دھمکی سے معاملہ اس کے سرکا در د بن گیا تھا ۔کیوں کہ اس سال 26 جنوری کو کسان آندولن میں شرارتی عناصر میں لال قلعہ سمیت کئی علاقوں میں ہڑدنگ بھی مچائی تھی ۔طاہر ہے اس سے ایک جائز کسان آندولن کی ساکھ کو بٹہ لگنا ہی تھا یہ بھی صحیح ہے راجدھانی میں قانون و انتظام کو لیکر پولیس کسی طرح کا خطرہ مول نہیں لے سکتی ۔جوائنٹ کسان مورچہ نے 200 کسانوں کو پارلیمنٹ پر دھرنا دینے کی اجازت مانگی لیکن پولیس کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہ رہی تھی ۔اب تک کے آندولن سے صاف ہو چکا ہے کسان آسانی سے تو نہیں لوٹنے والے ہیں اور دوسری طرف سرکار بھی ہٹھ دھرمی پر اتری ہوئی ہے اور بار بار دہرا رہی ہے کہ کچھ بھی ہو قانون واپس نہیں لیں گے اس تکرار اور بڑھنا طے ہے ۔کسان آندولن میں پھوٹ پیدا کرنے کی حکمت عملی کے بنانے کی کوششیں نکالنے کا کوئی راستہ بنا سکتی ہے ۔یہ بھی مانا جانا چاہیے کہ موقع ہاتھ سے نکل چکا ہے دونوں فریقوں کو جھکتے ہوئے بات چیت شروع کرنی چاہیے تاریخ گواہ ہے بات چیت سے بڑے بڑے تعطل دور ہو جاتے ہیں ۔لیکن کسان آندولن کے معاملے میں اب تک دیکھنے میں آیا ہے سرکار کا رخ فراخ دلی کا نہیں بلکہ سختی ہے ان کا رویہ سبق سکھانے والا ہے ۔لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پھوٹ ڈالو راج کرو کی پالیسی سے بنیادی مسئلوں کا حل نہیں نکلتا اگر زرعی قوانین واقعی کسانوں کے مفاد میں ہوتے تو کیوں کسان اس گرمی ،شردی ،برسات اور کووڈ کے وقت میں پچھلے آٹھ مہینہ سے آندولن کررہے ہوتے؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!