بغاوت قانون کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے!

سپریم کورٹ نے ایک بار پھر انگریزی حکومت کے دور میں بغاوت سے متعلق قانون کو بے سود قرار دیتے ہوئے مرکز سے پوچھا ہے کہ سرکار اسے منسوخ کیوں نہیں کر دیتی ؟ اس سے پہلے کئی معاملوں میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے صاف کیا ہے کہ سرکار کی پالیسیوں کی تنقید کرنا ملک سے بغاوت نہیں مانا جانا چاہیے ۔لوگوں کی نکتہ چینی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے ۔حال ہی میں صحافی ونود دوا معاملے کی سماعت کرتے ہوئے اس نے اس بات پر خاص طور سے زور دیا اس وقت بغاوت قانون کے تحت دیش کی مختلف جیلوں میں اپنے کئی صحافی ، سماجی رضاکار اور احتجاجی بند ہیں ان سے کچھ پتر کاروں نے کسان آندولن کی حمایت میں شروع کیا تھا تو کچھ نے ہاتھرس آبرو ریزی متاثرہ کی موت اور پھر انتظامیہ کے ذریعے راتوں رات اس کے داہا سنسکار سے جڑے حقائق اجاگر کرنے شروع کئے تھے اسی طرح دھیماکورے گاو¿ں معاملے میں کئی سماجی رضاکاروں اور دانشوروں پر بغاوت کا مقدمہ درج کر انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا اس قانون کے تحت آواز دبانے کے لئے اس کو عمل میں لایا جاتا ہے ۔انگریزوں نے تو اس قانون کو تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے بنایا تھا لیکن اب اس قانون کو بیجا استعمال ہو رہا ہے ۔یہ قانون بولنے کی آزادی پر روک کے برابر ہے ۔یہ سرکار کی غلط ذہنیت ہے اس قانون اور دیگر قوانین کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے لوگوں کو نشانہ بنانے کے لئے اس طرح کے قانون کا بیجا استعمال کر سکتے ہیں ۔بولنے کی آزادی پر انگریزوں کے دور کے قانون کے ساتھ چپکے رہنا سرکار کی اوچھی ذہنیت ہے ۔آج سوشل میڈیا پر لوگ سرکار کو کوس رہے ہیں ۔گالیاں دی جاتی ہیں وہ ان کے خلاف سرکار کوئی ایکشن نہیں لے پارہی ہے جبکہ صحافیوں کی آواز دبانے کے لئے دیش سے بغاوت قانون کو عمل میں لایا جارہا ہے ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ ابھی بھی ملک کی بغاوت قانون کو نابود کرنے میں سرکار متفق نہیں ہے جانچ ایجنسی اس قانون کا بیجا استعمال کرتی ہے سرکاری افسر کسی شخص کو پھنسانا چاہتا ہے تو بالا قانون کا سہارا لیتا ہے خاص بات یہ بھی دیکھنے میں آئی ملک سے بغاوت کے کیس میں کچھ شقات تو ہیں لیکن سزا بہت کم ہوتی ہے بغاوت پر مشکل دور میں متنازعہ قانون کے تحت 2014 سے 2019 کے درمیان 326 معاملے درج کئے گئے جن میں محض 6 لوگوں کو سزا ہوئی ۔سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ آئی پی سی کی دفع 126 (A ) بغاوت کے جرم کا بڑے پیمانے پر بیجا استعمال کیا گیا ۔اور اس نے مرکز سے پوچھا کہ وہ انگریزوں کے ذریعے بنائے گئے تحریک آزادی کو کچلنے کےلئے مہاتما گاندھی جیسے لوگوں کو چپ کرانے کے لئے استعمال کئے گئے ۔اس قانون کی دفعات کو ختم کیوں نہیں کرتی ؟ وقت آگیا ہے سرکار اب ضروری طور پر اس کالے قانون کو ختم کرے ،دیش میں انگریزوں کے زمانے میں بنے اس کالے قانون کو ختم کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟