رعایت ملی تو شراب کی دکانوں پر لمبی لائنیں

دہلی سمیت دیش بھر میں 25مارچ کو شروع ہوا لاک ڈاو ¿ن 41ویں دن اور لاک ڈاو ¿ن 3کا پیر کو پہلا دن کا ریڈ زون والی دہلی میں بھی چھوٹ ملی تو صبح سے ہی سڑک پر گاڑیاں بڑھنے لگیں غازی آباد اور نوئیڈاوارڈر پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیں تو گڑگاو ¿ں و فریدآباد بارڈر پر بھی سختی قائم رہی ۔پبلک ٹرانپورٹ شروع نہ ہونے کی وجہ سے دفتر کھلنے کے باوجود موجودگی کم رہی ۔دکانیں کھلنے سے پہلے ہی شراب کی دکانوں پر لمبی لمبی قطاریں لگ گئیں تھیں اور شراب کی بوتلیں پانے کے لئے لوگوں نے شوشل ڈسٹنسنگ کی کھل کر دھجیاںاڑائیں اور بھیڑ بے قابو ہونے کی وجہ سے 11بجے ہی سبھی دوکانیں بند کرنی پڑیں ۔جگت پوری کے علاقے چندر نگر کی دوکان پر ایک کلو میٹر لمبی قطار تھی تو لکشمی نگر میں ڈیڑھ کلو میٹر کی تھی کشمیری گیٹ وغیرہ علاقوں میں بھیڑ کوہٹانے کے لئے پولیس کو ہلکا لاٹھی چارج کرنا پڑا دہلی سرکار نے شراب کی دوکان کی کھولنے کی ذمہ داری اپنی چار کارپورشنوںکی سونپی 150دوکانوں کی فہرست بھی بنائی گئی لیکن شوشل ڈسٹنسگ کی تعمیل اور دوکان پر پانچ خریدار سے زیادہ اکھٹے نہیں ہونے کی شرط عائد کی تھی دہلی اسٹیٹ سبل سپلائی کارپوریشن نے دوکان کھولنے سے ہاتھ کھڑے کر دئیے ۔دہلی پولیس کے ملازم مسلسل شوشل ڈسٹنگ کے قواعد کی تعمیل کرنے کوکہتے رہے ۔دہلی میں ٹھیکے کھلنے پر کئی جگہوں پر سرکار کی مخالفت ہوئی تو کئی جگہ عورتوں نے شراب کی دوکانوں کو بند کرانے کے لئے مورچہ کھولا ان کا کہنا تھا کہ یہ اچھانہیں ہوا کی شراب کی دوکانیں کھلتے ہی ان کے آگے جمع ہوئی بھاری بھیڑ نے جسمانی دوری بنائے رکھنے کو ایسا نظر انداز کی کہ لاک ڈاو ¿ن کی تپسیا بھنگ ہو گئی ۔راجیہ سرکاروں اور اس کی انتظامیہ کو اس کا احساس ہونا چاہیے تھا شراب کی بکری کی اجازت ملنے پر ان کی دوکانوں پر افراتفری مچ سکتی ہے زیادہ دوکانوں پر ایسا ہی ہوا ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ رہی کہ لوگوں نے جلد شراب خریدنے کی للک میں وقت اور ڈسپلن کو ٹھیکا دکھا دیا وزارت کا کہنا ہے محصول کی وجہ سے دوکانیں کھولنے کے لئے ریاستی حکومتوں کا بھاری دباو ¿ تھا 2020-21میں دیش کی 16بڑی ریاستوں شراب کی بکری سے کل محصول سے قریب دو لاکھ کروڑ روپئے رکھا گیا ہے کئی ریاستوں کے کچھ محصول کا پندرہ سے بیس فیصد پیسہ اسی مد سے آتا ہے لہذا کہا جا رہا ہے اگر انتظامیہ کا پہیا چلانا ہے تو یہ مالی محصول ضروری ہے حالانکہ دیش میں دو ریاستیں ایسی بھی ہیں جن میں وہار اور گجرات جہاں شراب پر پابندی ہے انہیں اس مد سے ایک پیسہ بھی نہیں آتا پھر بھی وہ کام چلا رہے ہیں اگر شراب خریدنے والے تحمل سے کام لیں اور ڈھنگ سے شوشل ڈسٹنسنگ برقرار رکھیںتو شراب کی دوکانیں کھولنے میں کوئی نقصان نہیں ہے جہاں ایک طرف ضلع افسران لوگوں کو چلنے پھرنے اور دیگر شراب کی دوکانیں کھلنے پر ایک کلو میٹر لمبی قطاریں دیکھ کر کئی ریاستوں کے وزیر اعلیٰ خوش نظر آرہے ہیں ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟