پی ایف آئی کو بین کرنے کا سوال؟

شہریت ترمیم قانون کے خلاف دیش کے مختلف حصوں میں ہوئے تشدد میں خاص کر یوپی سرکار نے کٹر پشند اسلامک تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا ہے یوپی پولس نے پی ایف آئی کے 25ورکروں کو گرفتار کیا ہے جو مختلف حصوں سے گرفتاری ہوئی ہے ان پر مجرمانہ کرتوت میں شامل ہونے کا الزام لگایا گیاہے ۔پی ایف آئی ان دنوں سرخیوں میں ہے جو 2006میں کیرل میں نیشنل ڈولپمنٹ فرنٹ (این ڈی ایف)کی اہم تنظیم کی شکل میں شروع ہوئی تھی اس سے پہلے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پابندی عائد کرنے کیلئے یوپی سرکار نے مرکزی وزارت داخلہ کو خط بھیجا تھا ۔یوپی پولس کی مانیں تو ریاست کے مختلف حصوں میں جو وسیع پیمانے پر تشدد ہوا تھا وہ اسی تنظیم کی سازش کی وجہ سے ہوا یوپی سرکار کی پی ایف آئی پر پابندی کی سفارس کے بعد مرکزی سرکار کیا فیصلہ لیتی ہے یہ دیکھنا ہوگا ۔حالانکہ یوپی سرکار نے شہریت ترمیم قانون کےخلاف احتجاجی مظاہروں میںجگہ جگہ تشدد وآگ زنی ہوئی ہے اس میںپی ایف آئی کی شمولیت کے جو ثبوت دئے ہیں وہ کافی ٹھوس ہیں یوپی پولس کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہر ہ کچھ تو اچانک ہوئے لیکن تشدد یا آگ زنی وہ پہلے سے طے تھی صرف مغربی اتر پردیش ہی نہیں لکھنو ¿ میں بھی تشدد کے پیچھے پولس پی ایف آئی کا ہی ثبوت پیش کر رہی ہے واضح ہو کہ جھارکھنڈ میں پہلے اس تنظیم پر پابندی ہے لیکن کچھ ریاستوںمیں اس کی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں ۔حقیقت یہ بھی ہے کہ اسے ممنوعہ تنظیم سی می کی ساتھی تنظیم کے طور پر مانا جاتا ہے ۔پی ایف آئی نے کچھ ہی وقت میں کیرل سے نکل کر جس طرح دیش کی کئی ریاستوں میں اپنی جڑیں جما لی ہیں اس سے پتہ یہی چلتا ہے کہ اس کی آئیڈیا لوجی تیزی سے پھیل رہی ہے اوریہ اچھا اشارہ نہیں ہے کیونکہ بھلے ہی یہ تنظیم مسلمانوں اور دلتوں کے اختیارات کی بات کرتی ہو لیکن اس کے طور طریقے سوال کھڑے کرنے والے ہیں پی ایف آئی کے مشتبہ ممبروں کے پکڑے جانے کے بعد ان سے جس طرح کے دستاویز بر آمد ہوئے ہیں ان سے یہ ہی نتیجہ نکلا کہ یہ حقیقت میں سی می ہی ہے صرف نام بدلا ہے سی می پر پابندی لگاتے وقت واجپائی سرکار نے اتنی پختہ بنیاد بنائی تھی جس پر سپریم کورٹ نے بھی اپنی مہر لگا دی تھی امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بھی تنظیم کو پابندی لگانے کیلئے ٹھوس بنیاد ہونا ضروی ہے ورنہ وہ پابندی ٹک نہیں پاتی ۔پی ایف آئی نے یوپی پولس کے الزامات کو مستر د کیا ہے تنظیم کے قومی جنرل سکریٹری محمد علی نے کہا کہ یوپی پولس نے تنظیم پر بے بنیاد الزام لگائے ہیں لوگوں نے اپنے سبھی اختلافات کی پرواہ کیے بغیر اس سے ہاتھ ملایا اور دیش بھرمیں اور دیہات میں قانون کے خلاف اپنا مظاہر ہ کیا یہ صرف بی جے پی حکمراں ریاستیں تھیں جنہوں نے احتجاج کو تشدد کہہ کر دبانے کی کوشش کی باقی ریاستوں میں جمہوری اختیارات کے تحت پر امن مظاہر ے ہو رہے ہیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟