ڈیتھ وارنٹ :7 سال22دن بعد انصاف

آخر کار سات سال 22دن بعد دیش کو ہلا دینے والے نربھیا کانڈ کے چاروں گنہگاروں کو پھانسی پر لٹکانے کا وقت آگیا ہے ۔پھانسی کی سزا پر پٹیالہ ہائی کورٹ نے منگ کے روز ان چاروں درندوں کے خلاف ڈیتھ وارنٹ جاری کر دیا ہے ۔اس کے مطابق گنہگار اکشے کمار،پون گپتا،مکیش،اور ونے شرما کو 22جنوری کو صبح 7بجے تہاڑ جیل میں پھانسی دی جائے گی ۔ایڈیشنل سیشن جج ستیش کمار اروڈا نے ڈیتھ وارنٹ جاری کرنے سے پہلے چاروں قصورواروں کا موقف جانا چاروں کو ویڈیو کانفرنسگ کے ذریعہ جج کے سامنے پیش کیا گیا جج نے ان کی عرضیوں کے خارج ہونے کی جانکاری دی ،اور انہیں ملی موت کی سزا کے خلاف ان کی کسی بھی اپیل اب کسی عدالت میں التوا میں نہیں ہے ۔حتیٰ کہ نظر ثانی عرضیاں سپریم کورٹ سے بھی خارج ہو چکی ہیں اب صدر جمہوریہ کے پاس ان چاروں کی رحم کی اپیل بھی نہیں ہے اس کے بعد جج نے قصورواروں سے پوچھا کہ کیا تم لوگوں کو کچھ کہنا ہے ؟تو ونے اور پون کی طرف سے جواب دیا گیا کہ ہماری طرف سے سپریم کورٹ میں کیوریٹیو پٹیشن دینے کی کارروائی چل رہی ہے اس پر جج نے انہیں بتایا کہ ڈیتھ وارنٹ جاری ہونے کے بعد بھی ان کے لئے قانونی متبادل کھلے ہیں یہ ساری باتیں شام چار بجے سے 4:45کے درمیان بند کمرے میں ہوئیں جب کورٹ کا دروازہ کھلا تو سب سے پہلے وہاں سے پھانسی کی تاریخ اور وقت طے ہونے کی خبر ملی حالانکہ قصورواروں کے وکیل نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں کیوریٹو پٹیشن داخل کریں گے لیکن واقف کار کہتے ہیں کہ یہ راستہ بھی تقریبا بند ہو چکا ہے ۔کیونکہ کیورٹیو پٹیشن کو کھلی عدالت میں سن کر خارج کر دیا گیا ہے ۔سماعت بند کمرے میں ہوتی تو کیوریٹو پٹیشن میں کہہ سکتے تھے کہ ان کی دلیل ٹھیک سے نہیں سنی گئی ۔چاروں قصورواروں کے پاس 22جنوری تک رحم کی اپیل داخل کرنے کا حق ہے اگر قصوروار پھر رحم کی عرضی دیتے ہیں تو عدالت ڈیتھ وارنٹ پر اب بھی روک لگا سکتی ہے کیونکہ صدر جمہوریہ کے سامنے اس کے نمٹارے کے وقت کی معیاد نہیں ہوتی لیکن ہمیں لگتا ہے کہ گنہگاروں کا بچ پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔سب سے بڑی بات ہے کہ تاریخ کا جو وقت گنہگاروں کو اپیل کرنے کا ملتا ہے وہ ایک قانونی عمل کا ایک اہم ترین طریقہ ہے پر اب ان کا بچنا کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے ۔نربھیا کے گنہگاروں کو پھانسی دینے کے لے تہاڑ جیل میں نیا پھانسی گھر بن کر تیار ہے جیل نمبر 3میں پرانے پھانسی گھر سے دس فٹ کی دوری پر نیا پھانسی گھر بنایا گیا ہے ۔نربھیا کے قصورواروں کو پھانسی دینے کے لے تہاڑ جیل میں کافی پہلے سے تیاریاں چل رہی ہیں ۔اس دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ تہاڑ جیل میں صرف ایک ساتھ دو قصورواروں کو ہی پھانسی دینے کا انتظام ہے اس کے بعد 25لاکھ روپئے کی لاگت سے ایک اور پھانسی گھر بنانے کی منظوری دی گئی جیل کے ڈائرکٹر جنرل سندیپ گوئل نے بتایا کہ چاروں قصورواروں کو ایک ساتھ پھانسی دینے کا انتظام کر لیا گیا ہے تین دن پہلے ان کے گنہگاروں کی ڈمی کو پھانسی پر لٹکایا جائے گا ایک وقت وہ بھی ہوگا جو 22جنوری کو کورٹ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے ۔بلیک وارنٹ جاری ہونے کے بعد پھانسی دینے تک کی ذمہ داری جیل انتظامیہ کی ہے جیل حکام کا کہنا ہے کہ جیل کے منویل کے مطابق پھانسی دینے سے پہلے ڈمی کے ذریعہ اسکی ریہلسل کی جاتی ہے ۔پھانسی کے دو گھنٹے بعد ڈاکٹر لاشوں کی جانچ کرتا ہے اور پھر سرٹیفکٹ دیتا ہے سزا مکمل ہو گئی ہے ۔جس دن پھانسی دی جاتی ہے اس دن قصورواروں کو پانچ بجے جگا دیا جاتا ہے ۔انہیں نہانے کے بعد قصوروار کو پھانسی گھر کے سامنے کھلے احاطے میں لایا جاتا ہے جہاں جیل سپریم ٹینڈیٹ ڈپٹی سپری ٹینڈینٹ میڈیکل آفیسر اور سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور سیکورٹی عملہ موجود ہوتے ہیں اگر قصوروار خاص ظاہر کرئے تو وہاں ایک دھارمک شخص رہتا ہے اور پھر اسی وقت احاطے میں موجود مجسٹریٹ قصوروار سے اس کی آخری خواہش کے بارے میں پوچھتے ہیں جس میں وہ کسی رشہ دار کے نام خط وصیت لکھے یا اپنی جائیداد نام کرنے وغیرہ کی بات کہہ سکتا ہے کیونکہ قصوروار کے پاس صرف پندرہ منٹ کا وقت ہوتا ہے خواہشن جاننے کے بعد جلاد وہیں قیدی کو کالے کپڑے پہناتا ہے اس کے ہاتھ پیچھے کر کے اسے رسی یا ہتھکڑی کے باندھ دئیے جاتے ہیں اور یہاں سے پھانسی گھر تک قیدی کو لے جانے کی کاروائی شروع ہوتی ہے پھانسی گھر تک پہننے کے بعد سیڑھیوں کے راستے قصوروار کو چھت پر لے جاتے ہیں یہاں جلاد قصوروار کے منھ پر کالا کپڑا باندھ دیتا ہے اور گلے میں پھندا ڈال دیتا ہے ۔پھندا ڈالنے کے بعد قصورواروں کے پیروں کو رسی سے باندھ دیا جاتا ہے جب جلاد اپنے انتظام سے مطمئن ہو جاتا ہے تب وہ جیل سپرینٹینڈینٹ کو بتاتا ہے اور سپرین ٹینڈینٹ کے حکم کا انتظار کرتا ہے اور جیسے ہی جلاد کو اشارہ ملتا ہے وہ لیور کھینچ دیتا ہے ایک ہی جھٹکے میں قصوروار پھانسی کے پھندے پر جھول جاتا ہے ۔اور دو گھنٹے بعد میڈیکل افسر پھانسی گھر کے اندر جا کر یہ تصدیق کرتے ہیں کہ پھانسی پر جھول رہے شخص کی موت ہوئی یا نہیں ۔اس طرح سے قصوروار کو پھانسی کی سزا پر عمل کیا جاتا ہے ۔دیش کو 22جنوری کا بے صبری سے انتظار ہے جب نربھیا کے قصورواروں کو پھانسی ملے گی ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟