سی اے اے ،این آر سی نافذ کرنے سے انکار

معاملہ چاہے سی اے اے کا ہو یا این آر سی کا جس طریقہ سے دیش کی مختلف ریاستوں نے اسے لاگو کرنے کی مخالفت کی ہے اس سے ایک آئینی بحران کھڑا ہو سکتا ہے ۔پہلے بات کرتے ہیں سی اے اے کی اس کے خلاف کیرل اسمبلی کے ذریعہ ایک تجویز پاس کئے جانے کے ایک دن بعد وزیر اعلیٰ پن رئی وجین نے اس بارے میں بھاجپا کی نکتہ چینی کو مستر د کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اسمبلی کے اپنے مخصوص اختیار ہوتے ہیں ایسے قدم کے بارے میں کہیں بھی سننے کو نہیں ملا لیکن ہم موجودہ حالات میں کسی بھی چیز سے انکار نہیں کر سکتے آج دیش میں جو غیر متوقعہ واقعات یاچیزیں ہو رہی ہیں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کیرل اس قانون کے خلاف پرستاﺅ پاس کرنے والی پہلی ریاست ہے ۔یہ قانون آئین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے فوراََ بعد راجستھان میں کانگریس کے اشوک گہلوت سرکار نے بھی اس قانون کو نافذ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس بارے میں کیبنٹ کی مہر لگی ۔شہریت ترمیم ایکٹ اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر کے خلاف کانگریس مخالفت میں آگے آگے ہے ۔کسی بھی کانگریس حکمراں ریاست میں شہریت قانون لاگو کر پانا مرکزی سرکار کے لئے چنوتی بن گیا ہے ۔کانگریس کے کئی نیتا شہریت قانون کو مذہبی امتیاز پر مبنی اور آئین کے بنیادی وقار کے خلاف کہہ چکے ہیں ۔وزیر اعظم بے شک کہہ چکے ہیں کہ ان کی سرکار 2014کے بعد سے اب تک اس مسئلے پر کوئی غور خوض نہیں کیا لیکن انہوںنے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ دیش بھر میں این آر سی لاگو ہوگا یا نہیں دوسری طرف دس ریاستی حکومتیں اب تک این آر سی لاگو کرنے سے انکار کر چکی ہیں ان میں پنجاب مدھیہ پردیش ،راجستھان،چھتیس گڑھ ،مہاراشٹر کے علاوہ بہار ،اڑیشہ ،مغربی بنگال،آندھرا پردیش،اور کیرل بھی اس فہرست میں ہیں ان ریاستوں میں دیش کی 40فیصدی آبادی رہتی ہے مختلف ریاستوں کے ذریعہ شہریت ترمیم قانون نافذ نہ کرنے پر وزیر قانون روی شنکر پرساد نے بدھوار کو کہا کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس قوانین کو نافذ کرنا ریاستی حکومتوں کی آئینی فرض ہے ۔انہوںنے کہا کہ تعجب کی بات ہے کہ جو آئین کا حلف لے کر اقتدار میں آتا ہے وہ غیر آئینی بیان دے رہے ہیں اور یہ بیان کیرل اسمبلی کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون کو واپس لئے جانے کی تجویز کے بعد آیا ہے ۔انہوںنے کہا کہ پارلیمنٹ شہریت قانون سمیت مرکز کی فہرست کے تحت آنے والے امور پر قانون بنا سکتی ہے سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس قوانین کو لاگو کرنے سے ریاستی حکومتیں انکا رکر سکتی ہیں اس کا آخری فیصلہ کون کرئے گا؟ہمیں لگتا ہے کہ ان اختیارات کی لڑائی میں فائنل فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنا پڑ سکتا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!