جدوجہد کے راستہ پر تپ کر بنے ساو ¿تھ کے نائک !

لوک سبھا چناو ¿ کے نتیجوں کی اتنی دھوم دھام تھی کہ اس میں ان چار ریاستوں کے چناو ¿ نتیجوں کی آواز دھیمی پڑگئی ان میں آندھرا پردیش ،اوڈیشہ کے نتےجہ کافی کچھ ایسا کہہ گئے کہ جسے سناجانا ضروری ہے یہ دونوں ریاستیں ایسی رہی جہاں مودی میجک نہیں چلا لوک سبھی چناو ¿ میں بھاجپا کی بھاری جیت کے برابر آندھرا پردیش ،اروناچل اور سکم میں اسمبلی چناو ¿ میں کچھ نئے ستارے چمکیں ہیں تو کچھ نے اپنا کرشمہ برقرار رکھاہے مثال کے طور پر آندھرا نے جگہن موہن ریڈی کی وائی ایس آر کانگریس نے لوک سبھا کی 22سیٹیں جیتی اس کے علاوہ اسمبلی چناو ¿ میں بھی حکمراں تیلگودیشم پارٹی کا پتہ صاف ہوگیا اور اکثریت حاصل کی جو آندھرا کی بڑی جیت ہے اسی سیاسی اتھل پتھل میں میں آئی ایس آر کانگریس کے چیف جگن موہن ریڈی ساو ¿تھ انڈیا کی سیاست میں نئے اور نوجوان چہرے تھے بھاجپا کے خلاف ملک گیر مورچہ کھولنے والے چندر ابابو نائیڈو پی ڈی پی آندھرا پردیش میں لوک سبھا چناو ¿ کے ساتھ ساتھ اسمبلی چناو ¿ میں بھی ہار گئی جگن موہن ریڈی کی پارٹی نے 175اسمبلی سیٹیوں میں سے 152سیٹیں اور 25لوک سبھا سیٹیوں میں 22سیٹیں جیتی ہیں اب ان کی پارٹی دوسری بڑی پارٹی بن گئی ہے ۔اسی سال ان کے والد وائی ایس آر راجیشور ریڈی نے ایک ہیلی کاپٹر حادثہ میں ان کا ساتھ چھوڑا تو کانگریس نے بھی منجدھا رمیں چھوڑ گیا لیکن جگن موہن نے ہمت نہیں ہاری اور ان کے حکمت عملی ساز پرشانت کیشور اور ان کی ہندوستانی سیاسی ایکشن کمیٹی پرینکا اہم تعاون ہے چار دہائی سے چندر ا بابو نائیڈو نے اپنے سیاسی کیریر میں ہمےشہ پینترے بدلے ہیں کانگریس ممبر اسمبلی رہے پھر سسر این ڈی آر کی پارٹی پی ڈی پی نے تختہ پلٹ کر پارٹی اور وزیر اعلی کی کرسی پر قبضہ جمالیا اٹل بہاری واجپئی کے عہد میں این ڈی اے میں آئے اور 2018ساتھ چھوڑ کر اچانک بھاجپا مخالف مورچہ کی تشکیل میں لگ گئے لیکن نتیجوں میں سیاسی کیئر پر بوال کھڑا کردیا ایسے ہی تامل ناڈو کے دو سیکندر جے للیتا (انا ڈی ایم کے )ایم کرونا ندھی (ڈی ایم کے )کے موت کے بعد ریاست میں قیادت میں خلاع کا دور شروع ہوگیا ہے انا ڈی ایم کے دو گروپ میں بٹ گئی ۔لیکن اسٹالن نے خاندانی جھگڑے پر عبور کرتے ہوئے چناو ¿ سے پہلے کانگریس لیفٹ مورچہ کے ساتھ مضبوط اتحاد بھی کھڑا کرلیا چناو ¿ میں زبردست جیت کے بعد اسٹالن کا سیاسی قد اچانک آسمان پر چڑھ گیا ۔مغربی بنگال تریپورہ میں بنیاد ختم ہونے کے بعد لوک سبھا چناو ¿ میں لیفٹ پارٹیوں کی امید بس اسی ریاست پر ٹکی تھی لیکن ویجین پچھلے چناو ¿ سے بڑی کارگردگی کرنے کے بجائے لیفٹ مورچہ کا ریاست میں بس کھاتہ ہی کھلا وا سکے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟