پائل تڑوی خودکشی معاملہ سماج کی ذہنیت کو دکھاتا ہے !

عام چناو ¿ کے نتائج پر سارے دیش میں دھوم تھی اس لئے ممبئی کی ڈاکٹر پائل تڑوی کے ذرےعہ خود کشی کرنے لینے کا تکلیف دہ واقعہ کے وجہ سے حاشےہ پر رہ گئی ذات پر تبصرے سے پریشان وائی ایل نائر ہسپتال کی ریزیڈنٹ ڈاکٹر پائل تڑوی نے خود کشی کرلی ہے انکے خاندان کا الزام ہے کہ پائل پہ سینئر ڈاکٹرو ںنے اس کے پسماندہ برادری کے ہونے کے سبب اس پر طنز کرتے تھے پائل نے خود کشی کرنے سے پہلے فون کرکے اپنی ماں کو بتایاتھا کہ وہ اپنے تینوں سینئر ڈاکٹروں کی اذیتوں سے پریشان ہے اب وہ برداشت نہیں کرپارہی ڈاکٹر اسے برادری کا طعنے والے الفاظ سے بلاتے تھے پائل کی ماں کہتی ہے کہ پائل ہمارے فرقہ سے پہلی مہلا ڈاکٹر بننے والی تھی ادھر مہاراشٹر ایسوسی ایشن ریزیڈنٹ ڈاکٹرس کو لکھے خط میں تینوں ملزمان ڈاکٹر انکتا کھنڈیلوال ،ڈاکٹر ہیما آہوجہ وغیرہ نے کالج کے اس معاملہ میں منصفانہ تحقیقات کی مانگ کی ہے ۔وہیں انجمن کے افسر نے بتایا کہ ہمارے پاس پختہ جانکاری ہے کہ تینوں ڈاکٹروں نے ڈاکٹر پائل کے خلاف ذات سے متعلق چھینٹا کشی کی تھی انہوں نے یقین دلایاکہ ہم اس معاملہ میں جانچ کے لئے پولیس کو تعاون دیں گے ۔اس معاملہ ایک ملز م ڈاکٹر بھگتی مہیرے کو گرفتار کیا گیاہے ۔قبائلی فرقہ سے 26سالہ پائل خود کشی کے لئے اکسانے کے الزام میں تین سینئر ساتھی ڈاکٹروں پر مقدمہ درج کیاگیاہے ۔دودیگر ڈاکٹر انکتا او رہیما نے کورٹ میں پیشگی ضمانت کی عرضی دائر کی ہے ۔ریزرویشن سے داخلہ لینے کی بات پر پائل سے بد تمیزی جیسا برتاو ¿ کیا جاتاتھا اگر یہ سچ ہے تو اس سے صاف ہوتا ہے کہ سماج میں ذات پات کی نفرت کا زہر کس گہرائی تک بھرا ہوا ہے ۔پائل جلگاو ¿ ں کے قبائلی خاندان کی ذہین طالبہ تھی اس نے اپنے محنت سے ڈاکٹر بننے کا خواب پورا کیا لیکن بعد کے واقعات سے ظاہر ہے کہ ذات پات کا زہر دل میں پالننے والی ساتھی طالبہ کی اس کی ےہ ترقی قابل تعریف نہیں بلکہ غرور کا سبب بنی بیشک ملزمان کے خلاف کارروائی بھی ہوگی لیکن ایسے واقعات نہ ہوں اسکے لئے نئی پیڑی میں صاف ستھری ذہنیت کا فروغ ہماری ترقی اور تعلیمی نظام اورذہنیت کے لئے بڑی چیلنچ ہے آج بھی سماج میں ذات پات حاوی ہے ۔پائل کے اس معاملہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سماج کی ذہنیت کو بدلنا ہوگا جو آسان نہیں ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟