راہل گاندھی کی استعفی کی پیشکش

چناﺅ نتائج کے بعد ہاری ہوئی سیاسی پارٹیاں اپنی کمزوریوں کا جائزہ لیتی ہیں ۔جن پارٹیوں کو امید کے مطابق نتیجے نہیں ملتے وہ محاسبہ کرتی ہیں کہ کہاں کمزوری رہی ۔کہاں غلطیاں ہوئیں؟کانگریس پارٹی میں بھی جائزہ وہ محاسبے کا دور جاری ہے قومی کانگریس صدر راہل گاندھی اس ہار سے اس قدر مایوس ہیں کہ انہوںنے عہدہ چھوڑنے کی پیش کش کر دی پارٹی ورکر انہیں منانے میں لگے ہیں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیڈر ایک آواز میں ان کا استعفی نہ منظور کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے فیصلے پر اڑے ہوئے ہیں بے شک یہ اچھی بات ہے کہ انہیں انہیں اپنی ذمہ داری احساس ہو رہا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اتنی پرانی پارٹی آج جس دو راہے پر آکر کھڑی ہو گئی ہے اسے آگے بڑھنے اور اپنی کھوئی ہوئی زمین اور ساکھ کو واپس لایا جائے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ راہل نے 2019لوک سبھا چناﺅ کمپین میں جی توڑ محنت کی اور ایک اچھی کمپین چلائی یہ الگ بات ہے کہ مودی کے آندھی میں ان کی ساری محنت ہوا میں اڑ گئی لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ راہل کی محنت میں کوئی کمی رہی ؟لوک سبھا چناﺅ کے نتیجے کے بعد ہوئی کانگریس ورکنگ کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں راہل گاندھی اور سیکریٹری جنرل پرینکا گاندھی واڈرا کا غصہ پھوٹ پڑا چناﺅ کے دوران پارٹی لیڈروں کے رویہ کو برا مانتے ہوئے راہل نے دو ٹوک کہا کہ کملناتھ ،اشوک گہلوت،اور پی چتمبرم جیسے نیتاﺅں کی توجہ پارٹی سے زیادہ بیٹوں پر رہی راہل یہیں نہیں رکے بولے نیتاﺅں نے بچوں کو ٹکٹ دلانے کے لئے پارٹی پر دباﺅ بنایا یہاں تک کہ انہوںنے استعفی کی بھی دھمکی تک دے ڈالی تھی راہل کے تیور دیکھ کر میٹنگ میں موجود نیتا ہکا بکا رہ گئے سونیا گاندھی بھی خاموش رہیں ۔اسی دوران ہار کی ذمہ داری لیتے ہوئے پارٹی صدر سے استعفیٰ دینے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ اب اس عہدے پر گاندھی خاندان کے باہر سے کسی نیتا کو ذمہ داری لینی چاہیے اس عہدے کے لئے میری بہن کا نام نہ لیا جائے پرینکا نے بھی اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ کہاں تھے جب میرے بھائی اکیلے لڑ رہے تھے۔چار گھنٹے تک چلی میٹنگ میں راہل نے پوچھا جن ریاستوں میں حال ہی میں کانگریس اقتدار میں لوٹی وہاں اتنی بڑی ہا ر کیسے ہوئی؟اس دوران جو تر ادتیہ سندھیا جیسے بولے کہ ہمیں راجیوں میں مقامی لیڈروں کو مضبوط کرنا ہوگا ۔اس پر راہل کا غصہ بڑھ گیا پی چتمبرم کی طرف دیکھتے ہوئے راہل نے کہا کہ انہوںنے بھی دھمکی دی تھی کہ اگر بیٹے کو ٹکٹ نہیں ملا تو استعفیٰ دے دوں گا ۔میٹنگ میں کملناتھ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کا ذکر کرتے ہوئے راہل بولے انہوں نے کہا تھا کہ اگر میرا بیٹا چناﺅ نہیں لڑے گا تو میں سی ایم نہیں رہ سکتا ۔اشوک گہلوت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ تو بیٹے کی کمپین کے لئے سات دن تک جودھ پور میں پڑے رہے ۔انہیں ریاست کی باقی سیٹوں کی کوئی فکر نہیں تھی ۔اس کے بعد راہل استعفیٰ پر اڑے رہے اور اچانک اٹھ کے چلے گئے ۔پہلے پرینکا نے راہل گاندھی کو خاموش کرتے ہوئے کہا کہ بھائی تم استعفیٰ مت دو اس سے بھاجپا کی چال کامیاب ہوگی ۔اس چناﺅ میں پارٹی کی ہا ر کے لئے جو لوگ ذمہ دار ہیں وہ سبھی اسی کمرے میں بیٹھے ہیں آپ لوگوں نے پردھان منتری مودی کے خلاف لڑنے کے لئے اکیلا چھوڑ دیا رافیل اور چوکیدار چور ہے پر راہل کی بات کو کسی نے بھی آگے نہیں بڑھایا ۔پردھان منتری کے فلاپ کرپشن کو لے کر حملے کئے کچھ لیڈروںنے ہاتھ کھڑے کئے تو راہل نے انہیں مسترد کیا ۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ ایک مضبوط جمہوریت میں حکمراں پارٹی اور اپوزیشن مضبوط ہونے چاہیئے اگر اپوزیشن مضبوط نہیں ہوگی تو حکمراں پارٹی بے لگام ہو جائے گی اور اپنے من مانے فیصلے کرئے گی بے شک اس زبردست اکثریت سے مودی سرکار من مانے فیصلے کر سکتی ہے لیکن اگر اپوزیشن رہی تو پھر بھی ان سے سوال جواب کر سکتی ہے ۔اس وقت ہمیں پارٹی میں کوئی ایسا چہر ہ دکھائی نہیں پڑتا جو راہل کی جگہ لے سکے ۔اس لئے چتمبرم نے راہل کو استعفیٰ واپس لینے کے لئے منانے کی کوشش کی تھی ۔پتہ نہیں ساﺅتھ انڈیا کے لوگ آپ سے کتنا پیار کرتے ہیں اگر آپ نے استعفی دیا تو کچھ لوگ خود کشی کر سکتے ہیں وہیں لوک سبھا چناﺅ کے بعد کرناٹک اور میدھیہ پردیش کی ریاستی حکومتوں پر سیاسی بحران کھڑا ہو گیا ہے اور وہاں بغاوت کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں اس کے علاوہ 2020میں دہلی،ہریانہ ،مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں اسمبلی چناﺅ ہونے ہیں ۔اور اس کے علاوہ دہلی اور ہریانہ سے کانگریس کھاتہ نہیں کھول سکی۔ان حالات میں جو بھی پارٹی کی کمان سنبھالے گا اس کے لئے مایوس ورکروں اور کمزور پڑی تنظیمیں پھر سے نئی جان ڈالنا آسان نہ ہوگا دوسری طرف راہل کے بعد کانگریس میں کوئی ایسا نیتا نہیں جس کی پوری پارٹی پر پکڑ ہو راہل گاندھی پہلے ہی پرینکا کو کمان سونپنے سے انکار کر چکے ہیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے 2019لوک سبھا چناﺅ سے پہلے پانچ اسمبلی چناﺅ میں راہل کی قیادت میں ہی کانگریس پارٹی نے بی جے پی کو ہرایا تھا ۔راہل گاندھی کو استعفیٰ کی پیشکش کو پھر سے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ہار جیت تو چلتی رہتی ہے اب وقت پارٹی کے وجو د کو بچانے کی لڑائی کا ہے اور اس کے لئے مضبوط لیڈر شپ اور تنظیم کی ضرورت ہے راہل فل سرجری کریں اور نئی ٹیم تیار کریں جو آگے کی چنوتیوں کا مقابلہ کرنے میں اہل ثابت ہو۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟