جو جیتا وہ نریندر ہے

مودی ہے تو ممکن ہے.....چناﺅ سے پہلے یہ محض ایک نعرہ تھا لیکن نتیجے آنے کے بعد یہ ایک معجزہ ہو گیا ۔بی جے پی کی رہنمائی والی این ڈی اے کو اگر 2019میں 2014سے بھی بڑی جیت ملی ہے تو اس کی وجہ صرف نریندر مودی اور صرف اور صرف نریندر مودی ہی ہیں ۔مودی سبھی 542سیٹوں پر چناﺅ لڑوا رہے تھے ووٹوں کو اپنے علاقہ کے امیدوار تک کے نام پتہ نہیں تھے ۔جس سے بھی پوچھو کہ ووٹ کس کو دے رہے ہو جواب ہوتا تھا مودی کو ۔ووٹروں کے درمیان مودی کا نام ایسا بھروسہ بنا کر بیٹھ گیا جس کے آگے نہ ذات ،دھرم کی کوئی دیوار کھڑی نہ ہو پائی اور نہ ہی پارٹیوں کے اتحاد کا کوئی معنیٰ رہ گیا ۔لوگ مودی کے نام سے اتنے متاثر ہوتے دکھائی دئے کہ انہیں دیش کی باگ ڈور اگلے پانچ سال کے لئے سونپنے میں کوئی کسر یا غلطی فہمی نہیں رکھی،اس مرتبہ مودی کی لہر نہیں سنامی تھی ہندستان کی تاریخ رہی ہے کہ ممبران پارلیمنٹ نے عام طور پر مل کر پردھان منتری چنا ہے لیکن اس مرتبہ تاریخی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے اس مرتبہ ایک بار پھر نریندر مودی نے 350ممبران پارلیمنٹ کو چنا الٹی گنگا اس لئے بہی کہ ہر سیٹ پر امیدوار کا چہرہ کام،بنام مودی چلا لوک سبھا کے اس چناﺅ میں کانگریس نے رافیل جنگی جہاز سودے میں گڑبڑی ،نوٹ بندی،جی ایس ٹی ،کسانوں کی بدحالی بے روزگاری،وغیرہ تمام جنتا سے جڑے مسئلوں کو اٹھا کر بھاجپا کے خلاف زوردار کمپین چلائی پارٹی نے غریبوں کے کھاتے میں ہر سال 72ہزار روپئے ڈالنے والی لوک لبھاونی اسکیم بھی دیش کے ووٹروں کے سامنے رکھی لیکن وہ بھاجپا کی طرف سےبالا کوٹ ہوائی حملہ ،راشٹرواد ،قومی سلامتی،اور جنگ کلیان سے وابسطہ اسکیموں کے جارحانہ کمپین کرنے میں پوری طرح ناکام ہوئی ،مہابھارت یودھ کے وقت جب شری کرشن سے پوچھا گیا کہ وہ کس کے حق میں تھے ان کا جواب تھا کہ وہ ہستنا پور کے حق میں تھے آج بھارت کے 130کروڑ شہریوں نے مودی کو بتا دیا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں نریندر مودی پہلے غیر کانگریسی پی ایم ہوں گے جنہوںنے پانچ سال کی معیاد پورا کرنے کے بعد مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں واپسی کی ہے ۔پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے بعد تیسرے وزیر اعظم ہیں جن کی قیادت میں پارٹی اکیلے اپنے دم خم پر اکثریت کے ساتھ اقتدار میں لوٹ رہی ہے ۔2014میں بی جے پی کو 282سیٹیں ملی تھیں لیکن اس مرتبہ یہ نمبر 300کو پار کر گیا ان کی رہنمائی میں این ڈی اے کی سیٹوں کی تعداد 2014کے مقابلے 336سے بڑھ کر 350ہو گئی ہے یہ اضافہ اس لئے بھی اہم ہے کہ سرکار میں رہنے سے اس کے خلاف حکمراں مخالف لہر کا اندیشہ تھا اور خود ساختہ سیاسی پنڈتوںنے پیش گوئی کی تھی کہ بی جے پی ہار رہی ہے ۔اور اس کی سیٹیں پچھلی مرتبہ سے کم رہیں گی مودی نے مضبوط اپوزیشن کو چت کر دیا اور اس کا کوئی اشو بھی نہیں چل سکا ۔مودی کی جیت کی کئی وجہ ہے جن کا باریکی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے انہیں آنے والے دنوں میں نشاندہی دکرنے کی کوشش کروں گا لیکن آج کے لئے جو جیتا وہ نریندر ہے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!