بغیر بھیشم پتامہ کے مہابھارت 2019

بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہولی کی شام لوک سبھا چناﺅ کے لئے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی اس کی سب سے چونکانے والی بات یہ رہی کہ بھاجپا کے بانی اور چار چناﺅں میں بھاجپا صدر رہے لال کرشن اڈوانی کا نام نہیں تھا ۔ان کی جگہ گاندھی نگر سے موجودہ پارٹی صدر امت شاہ چناﺅ لڑیں گے یہ پہلی بار ہے کہ 14سال کی عمر سے سنگھ سے وابسطہ 91سالہ اڈوانی لوک سبھا چناﺅ نہیں لڑیں گے اڈوانی کے علاوہ 75برس کی عمر پار کر چکے بی ایس کھنڈوری بھگت سنگھ کوشیاری اور بجوائے چکروتی کا بھی ٹکٹ کاٹ دیا گیا ہے ۔موجودہ بھاجپا کے اہم چہرے اڈوانی کی ہی دین ہیں قیام کے بعد سال 1984کے پہلے چناﺅ میں محض دو سیٹیں حاصل کرنے والی بھاجپا کو 182سیٹیں تک جتا کر اقتدار کا ذائقہ چکھنے کا سہرہ بھی اڈوانی جی کو ہی جاتا ہے اڈوانی جی نے سال 1990میں رام مندر تعمیر کے لئے رتھ یاترا نکال کر پارٹی کو نئی بلندیاں دیں رام مندر تحریک نے پورے دیش میں بھاجپا کو مضبوطی فراہم کی ۔کلراج مشن نے ماحول دیکھ کر ہی خود چناﺅ نہ لڑنے سے انکار کیا ہے جبکہ حکم دیو نارائن یادو اپنی سیٹ پر ٹکٹ دئے جانے سے مطمئن ہیں باقی بچے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی ،شانتا کمار ،نے خود چناﺅ لڑنے سے منع کر دیا ہے ۔جوشی جی کی کانپور سیٹ سے ریاستی تنظیم نے ستیش مہانا کو اتارنے کی صلاح دی ہے ایک وقت اڈوانی کی پارٹی میں ساکھ ہندو سمراٹ کی تھی مگر 2005میں پاکستان کے دورے پر گئے اوروہاں جنّا تنازع کے سائے نے۔پارٹی میں ان کی ساکھ کمزور کر دی ۔رہی سہی کسر 2009میں پی ایم کا امیدوار بننے کی خواہش نے پوری کر دی ۔انہیں پارٹی کے مرد آہن مانا جاتا تھا اڈوانی کے ٹکٹ کٹنے پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا پچھلے پانچ سال میں پارٹی اور لوک سبھا میں ان کی سیاسی سرگرمی صفر اور ناکارہ بناتے ہوئے پارٹی نے مارگ درشک منڈل کا ممبر بنا کر سمانت کیا ان کا یہی حق تھا کہا جا رہا ہے کہ بھاجپا نے ان کی 91سالہ عمر پر غور رکرتے ہوئے انہیں اس بار ٹکٹ نہیں دیا لیکن 16ویں لوک سبھا میں ان کی حاضری اور پندرہوں لوک سبھا کے مقابلے میں زیادہ رہی ایوان کی اگلی لائن میںبیٹھنے کے باوجود کوئی تقریر نہیں سنائی دی ۔92فیصد حاضری کے بعد بھی گزشتہ پانچ برسوں میں محض 356ہی الفاظ بول سکے سچ تو یہ ہے کہ پچھلی لوک سبھا میں انہیں بولنے نہیں دیا گیا ۔بھاجپا صدر امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی نے دیو اتو کی جگہ دے کر ان سے بولنے کا حق بھی چھین لیا ۔سیاست میں خاص کر ہندوستانی سیاست میں کچھ ایسے لوگ ہیں جس پیڑ پر چڑھتے ہیں سب سے پہلے اس کی شاخ کو ہی کاٹتے ہیں گجرات فسادات کے بعد ایسا موقعہ آیا تھا جب وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو ہٹانے کے لئے اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے صلاح دی تھی لیکن اس وقت یہی اڈوانی جی تھے جنہوں نے نریندر مودی کو بچایا آج مودی اس کا شکریہ کیسے ادا کرتے ہیں اور کتنے ابن الوقت ہیں تازہ واقعہ سے پتا چلتا ہے ۔ایک موقعہ ایسا بھی آیا تھا جب سبھی امید کر رہے تھے کہ شاید اڈوانی کو دیش کا صدر بنا دیا جائے لیکن اس عہدے سے بھی انہیں محروم کر دیا گیا لال کرشن اڈوانی اپنی زندگی کی سنچری لگانے سے کچھ ہی دو ر ہیں وہ اقتدار کی چوٹی پر بھلے ہی نہی پہنچے لیکن اس سے بہت دور نہیں رہے ۔ان کی گنتی کے سب سے سلجھے ہوئے لیڈروں میں ہوتی رہی ہے ۔اگر ہم سیاست میں رہنے والے یا عام زندگی جینے والے کسی مہذب شخص کو ماڈل بنائیں تو بہت ممکن ہے وہ اڈوانی جی کی شخصیت کے آس پاس ہی کہیں ہوگا ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟