نیتاﺅں کی املاک میں بے تحاشہ اضافے کا معاملہ

سپریم کورٹ میں این جی او لوک پرہری کے ذریعہ غیر توہین عدالت کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے عوام کے نمائندوں کی آمدنی اور اثاثے کی نگرانی کے لئے مستقل مشینری بنانے پر اپنے فیصلے پر ابھی تک عمل نہ ہو پانے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے مرکزی سرکار سے جواب داخل کرنے کے لئے کہا ہے پچھلے سال عزت معاب عدالت نے عوامی نمائندوں کی پراپرٹی پر نظر رکھنے کے لئے سرکار کو ایک قدم اُٹھانے کا حکم دیا نہ جانے کتنے ایم پی ہیں جو اپنے عہد میں ہی نا جائز طریقہ سے امیر بن جاتے ہیں تقریبا ایسی ہی پوزیشن ممبران اسمبلی کے معاملے میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے جب ایسے ممبر اسمبلی یا ایم پی دن دونی رات چوگنی مالی ترقی کرتے ہیں تو کہیں نہ کہیں ان پہ زیادہ شبہ ہوتا ہے جو نہ تو کاروبار کرتے ہیں اور نہ ہی سیاست کے علاوہ کوئی دھندا کرتے ہیں ۔حال میں جو تفصیلات سامنے آئیں ان کے مطابق 2014میں پھر سے منتخب ہوئے 153ایم پی کی اوسط پراپرٹی میں 142فیصد اضافہ درج کیا گیا اور فی ایم پی اوسط آمدنی 13.32کروڑ روپئے رہی بھاجپا 72ایم پی کی پراپرٹی میں 7.54اوسط سے اضافہ ہوا کانگریس کے 28ایم پی کی املاک میں اوسطا6.35کروڑ روپئے کا اضافہ ہوا کیا اسے صحیح مانا جا سکتا ہے ؟کیا یہ اعداد شمار صحیح ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے سیاست نا جائز کمائی کا ذریعہ بن گئی ہے جبکہ کچھ ایم پی ایسے ہیں جو بڑے کاروباری ،تاجر ہی یا پھر پشتینی امیر ہیں لیکن آخر اس کا کیا مطلب ہے کہ عام پس منظر میں صرف سیاست کرنے والوں کی پراپرٹی میں پانچ سال میں 203گنا اضافہ ہو جائے کیا دال میں کچھ کالا نہیں لگتا ؟نامزدگی بھرتے وقت ایک حلف نامے میں اپنی بیوی یا شوہر یا رشتہ داروں یا بچوں کے اثاثے کیا ذریعہ بتانا ہوتا ہے اور فارم 26میں ترمیم کرنے کا سپریم کورٹ کا حکم جس سے عوامی نمائندوں کو عوامی نمائندگان قانون کے تحت یہ لکھا جانا کہ وہ اس قانون کی کسی تقاضے کے تحت چناﺅ لڑنے کے اہل ہیں لیکن سرکار نے نہ صرف جزوی طور پر عمل کیا بلکہ سب سے پرکھنے والی بات یہ ہے کہ عوام کے نمائندوں کی آمدنی و اثاثہ نگرانی رکھنے کی مستقل بوڈی یاا دارہ قائم کرنے میں اس نے کوئی دلچسپی نہیں لی یہ لاچاری تب ہے جب ایم پی و ممبران اسمبلی کی پراپرٹی میں اضافے کے اعداد شمار مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں یہ نہ تو کسی پارٹی خاص تک محدود ہے اور نہ ہی کسی ایک ریاست تک قریب ڈیڑھ سال پہلے انکم ٹیکس نے کچھ ایم پی اور ممبران اسمبلی کی فہرست سپریم کورٹ کو سونپی تھی جن کی آمدنی دو چناﺅ کے بعد بے تحاشہ بڑھی ہے ۔اسو شی ایشن اور ڈیموکریٹک ریفارم بتا چکی ہے کہ 16ویں لوک سبھا اب تک کی سب سے امیر تھی لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جب پارٹیاں ٹکٹ بیچنے میں لگی ہیں تو ایم پی اور ممبران اسمبلی پہلے تو اپنے چناﺅ پر خرچ ہوئی رقم کی کمائی کرتے ہیں اور پھر اگر اگلا چناﺅ ہار جائیں تو اس کے لئے بھی انتظام کرتے ہیں یہ سب پیسہ آتا کہاں سے ہے؟سیاست سے اس لئے ٹکٹوں کا بکنا ،اتنے مہنگے انتخابات پر لگام کسنی ضروری ہے سیاست کو کمائی کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟