اب پورا دھیان ٹوکیو اولمپک پر ہونا چاہئے

انڈونیشیا کی راجدھانی جکارتہ میں ختم ہوئے ایشیائی گیمس بھارت کے لئے قابل قدر رہے کیونکہ جہاں کل تمغوں کے لحاظ سے یہ ہماری شاندار کارکردگی رہی وہیں گولڈ میڈلوں کے معاملہ میں ہم نے 1951 کی اپنی شاندار پرفارمینس کی برابری کی تھی۔ بھارت نے اس بار 15 گولڈ اور 24 سلور وغیرہ سمیت69 میڈل جیتے ہیں۔ اس سے پہلے سب سے زیادہ میڈل جیتنے کا ریکارڈ 2010 میں گوانگچھو کھیلوں میں 65 میڈل کا ریکارڈ تھا۔ ان 15 گولڈ میڈل جیتنے میں ہمیں 67 سال لگ گئے ہیں۔ ان کھیلوں سے دو مثبت پہلو سامنے آئے ہیں پہلا ہندوستانی پرفارمینس کا آگے بڑھتا ٹرینڈ اور دوسرا اس بار نوجوان کھلاڑیوں نے مورچہ سنبھال کر دیش کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ان کھیلوں میں بھارت کی شاندار پرفارمینس ایتھلیٹ میں رہی ،جہاں ہمارے کھلاڑیوں نے 7 گولڈ سمیت19 میڈل جیتے ہیں۔ ایسے ہی نشانے بازی میں دو گولڈ سمیت 9 میڈل ہماری جھولی میں آئے۔ حالانکہ ناکامیاں بھی کم نہیں رہیں جیسے کبڈی میں ہماری بادشاہت ایران نے چھین لی ہے۔ کشتی میں دو بار اولمپک میں میڈل جیتنے والے پہلوان سشیل کمار پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہوگئے۔ مردوں کی ہاکی میں تمام لیگ میچ جیتنے کے بعد وہ بھی ریکارڈ گولوں سے ہم فائنل تک نہیں پہنچ پائے اور تانبے سے ہی تسلی کرنی پڑی۔مہلا ہاکی ٹیم نے شاندار پرفارمینس دکھائی لیکن فائنل میں جاپان کے ہاتھوں ہارنے سے افسوس ہوا کیونکہ گوانگچھو کے ایشن گیمس میں بھارت کی بہتر پرفارمینس کا اثر دو سال بعد ہوئے اولمپک میں دکھائی دیا۔ ایسے میں جکارتہ میں قابل قدر پرفارمینس کی چھاپ دو سال بعد ہونے والے ٹوکیو اولمپک میں دکھائی دینے کی امید رکھنی چاہئے۔ بھارت نے اس بار 20-22 ایسے کھیلوں میں قریب 228 کھلاڑی بھیجے۔ یہاں تک ایک بھی میڈل نہیں ملا۔ اس معاملہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ بھارت سے کئی چھوٹے ملکوں نے ہم سے زیادہ میڈل جیتنے میں کامیابی پائی؟ چین کی بات چھوڑدیں تو جاپان، ساؤتھ کوریا، انڈونیشیا، ازبکستان، ایران اور چین ، تائپے نے ہمارے سے زیادہ میڈل جیتے ہیں۔ میڈل ٹیلی میں بھارت کا 8 واں مقام رہا۔ اگر یہ دیش کھیل کی دنیا میں اتنا شاندار کھیل دکھا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ فرق صرف سہولیات میں ہے، ٹیلنٹ ہمارے پاس بھی ہے لیکن ہمیں درکار سہولت کی کمی ہے۔ زیادہ تر میڈل جیتنے والوں کی اپنی خود کی اہلیت اورٹریننگ تھی جس کی وجہ سے وہ یہ میڈل جیتے۔ ٹیم میں یکسوئی کی کمی ہے۔ سرکار اور کھیل فیڈریشنوں کو اس طرف خاص توجہ دینی ہوگی۔ ابھی سے ٹوکیو اولمپک کی تیاری میں لگ جانا چاہئے۔ ان ہونہار کھلاڑیوں کو پوری سہولیت ملنی چاہئے۔ جیتنے والے سبھی کھلاڑیوں کو بدھائی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟