این پی اے مہا گھوٹالہ: اس حمام میں سبھی ننگے ہیں
بینکوں کا قرض کیوں ڈوبتا چلا گیا اور وہ کیسے بدحال ہوتے گئے اس کا تازہ انکشاف ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھو راجن نے کیا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کی تجزیاتی کمیٹی کے جواب میں بتایا کہ کس طرح دریادلی برتی گئی جو بھاری پڑی۔ این پی اے کے معاملہ پر جو خلاصہ رگھوراجن نے اب کیا ہے وہ کئی سنگین سوال کھڑے کرتا ہے۔ این پی اے کے مسئلہ نے بینکنگ سسٹم کے کھوکھلے پن کو اجاگر کر کے رکھ دیا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بینکوں کا اندرونی مینجمنٹ مشینری کس طرح سے چلتی ہے اور چلائی جارہی ہے۔ راجن کے انکشافات سے الزام در الزام تراشی کا دور شروع ہونا فطری ہی تھا۔ یوپی اے اور این ڈی اے دونوں ہی آج کے حالات کے لئے ذمہ دار ہیں۔ بینکوں کے ڈوبے قرض یعنی این پی اے کو لیکر جہاں راجن نے یوپی اے سرکار کو ذمہ دار ٹھہرایا وہیں انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بینکوں کی دھوکہ دھڑی سے وابستہ ہائی پروفائل معاملوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کیلئے اس کی فہرست پی ایم او کو بھیجی گئی تھی۔ حالانکہ راجن نے یہ نہیں بتایا کہ کس پی ایم او کو یہ فہرست بھیجی گئی تھی۔ یوپی اے کے پی ایم او کو یا این ڈ ی اے کے پی ایم او کو؟ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 2016 میں این ڈ ی اے کی سرکار تھی اس لئے یہ فہرست مودی جی کے پی ایم او کو بھیجی گئی ہوگی۔ تجزیاتی کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو بھیجے گئے نوٹ میں راجن نے کہا کے سرکاری بینکوں کے بینکنگ سسٹم میں دھوکہ دھڑی کے معاملہ بڑھتے جارہے ہیں لیکن یہ ڈوبے ہوئے قرض کی رقم کے مقابلے اب بھی کم ہے۔ انہوں نے بتایا میں نے دھوکہ دھڑی نگرانی کمیٹی بنائی تھی تاکہ جانچ ایجنسیوں تک شروع میں ہی ان معاملوں کو جانکاری پہنچ جائے۔ میں نے ہائی پروفائل معاملوں کی فہرست پی ایم او کو بھیج کر اپیل کی تھی کہ کم سے کم ایک یا دو ملزمان پر مقدمہ درج کر مشترکہ کارروائی کی جائے۔ مجھے اس بارے میں نہ تو کوئی جواب ملا اور ظاہر ہے نہ کوئی ٹھوس کارروائی ہوئی؟ سرکار ایک بھی ہائی پروفائل دھوکہ باز کے خلاف مقدمہ چلانے کو لیکر بے پرواہ رہی۔ بینک افسر جانتے تھے کہ جب کسی لین دین کو دھوکہ دھڑی مانا جائے تو جانچ ایجنسیاں اصل گناہگاروں کو پکڑنے کے بجائے انہیں ہی ٹارچر کریں گی لہٰذا انہوں نے اپنا کام دھیما رکھا۔ بینکوں کے ڈوبے قرض یعنی این پی اے کو لیکر راجن نے یوپی اے سرکار کو ذمہ دار ٹھہرایا جس کے بعد کانگریس نے صفائی دی کہ این پی اے کے لئے بھاجپا سرکار ذمہ دار بھی ہے وہیں بھاجپا نے کہا کہ یوپی اے سرکار کے وقت مافیا راز تھا اور کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہا کہ 2014 میں جب یوپی اے اقتدار سے باہر ہوئی ،تک کل این پی اے 2.83 لاکھ کروڑ روپے تھا۔ این ڈی اے سرکار کے آنے کے بعد گزشتہ چار سالوں میں دس لاکھ تیس ہزار کروڑ روپیہ ہوگیا۔ بیشک 2.83 لاکھ کروڑ کے این پی اے کی ہماری ذمہ داری بنتی ہے، لیکن مودی سرکار کے چار سالوں میں دس لاکھ تیس ہزار کروڑ کا این پی اے ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وہیں اس اشو پر بھاجپا کی مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے کہا کہ راجن نے جو کہا ہے وہ حقیقت صرف کانگریس سرکار کے ذریعے سیاست میں مافیا راج کو ہی نہیں بتاتی بلکہ یوپی اے سرکار نے دیش کو ان چنوتیوں سے لڑنے کے لئے چھوڑدیا۔ کیا یہ بات سنجیدہ نہیں ہے۔ بنیادی پروجیکٹوں کے لئے ہزاروں کروڑ کا قرض دیتے وقت بینک یہ یقینی کیوں نہیں کر پائے کہ ان موٹے قرضوں کی واپسی کیسے ہوگی؟ ایک طرح سے یہ کھلے ہاتھ پیسہ لٹانے جیسی بات ہوئی ہے۔ کئی معاملوں میں تو بینکوں نے قرض لینے کیلئے انفورسمنٹ کے سرمایہ بینک کی رپورٹ کی بنیاد پر معاہدہ کرلیا تھا اور اپنی طرف سے جانچ پڑتال ذرا بھی ضروری نہیں سمجھی۔ دنیا میں شاید ہی کوئی قرض دہندہ ایسا ہوتا ہوگا جو اس کی واپسی کے طریقے یقینی نہیں کرتا لیکن بھارت میں کمرشل بینکوں نے اتنی زبردست لاپروائی برتی ایسے میں کیا یہ ماننا غلط ہوگا کہ بھارت میں بینکنگ سسٹم بالکل ٹھپ حالت میں ہے؟ رگھو راجن نے اپنے تحریری بیان میں کہاں کہ اس کی سچائی پر کوئی بھی سوال نہیں اٹھاسکتا ہے اس سے کانگریس اوربھاجپا دونوں ہی کٹہرے میں کھڑی ہوتی ہیں۔ حالانکہ معیشت اور بینکنگ سسٹم پر نظر رکھنے والوں کے لئے ان میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ راجن کے کہنے سے ان ساری باتوں کی تصدیق ہوجاتی ہے جو این پی اے کے سلسلے میں کہی جارہی تھیں۔ این پی اے کے بوجھ سے ہمارا بینکنگ سسٹم چرمرا رہا ہے اور نریندر مودی سرکار کو اب انہیں بچانے کے لئے موٹی رقم لگانی پڑ رہی ہے۔ بینکوں کا قرض دینے میں جوش تو صاف دکھائی پڑتا ہے لیکن اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے یہ جاننے کی ضرورت بھی ہے۔ کیا سرکار کی طرف سے بینکوں کو اس کے لئے اشارے دئے جاتے تھے اور دئے جارہے ہیں؟ بینک اپنے خطرے مول لینے کی بنیاد پر سارے قرض دے دیں گے یہ عام سمجھ سے پرے ہے۔ اس میں بینک افسران کا کرپشن میں ملوث ہونا بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ الزام یہ ہے کہ بینک حکام کے ذریعے قرض کی یاد دلانے پر انہیں دھمکی تک ملتی تھی۔ ایسا ماحول آخر کیوں بن گیا تھا اس کی جانچ تو ہونی چاہئے۔ کانگریس کو یہ کہنے سے اس کا قصور کم نہیں ہوجاتا کہ جب ہم گئے تو این پی اے صرف دولاکھ کروڑ تھا۔ آج نو لاکھ کروڑ ہوگیا ہے۔ یہ اس لئے ہوگیا کہ موجودہ سرکار نے پورے این پی اے کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے تاکہ بینکنگ سسٹم کی اصل پوزیشن سمجھی جاسکے۔حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی سرکار رہی ہو اگر وہ وقت پر مناسب پالیسی ساز فیصلہ نہیں لے پاتی ہے تو اس کے سنگین نتیجے بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ این پی اے کی وجہ سے کنگالی کے دھانے پر پہنچے بینکوں کو فوری خوراک کے طور پر پیکیج تو دے دئے گئے ہیں لیکن بنیادی بیماری جوں کی توں بنی ہوئی ہے۔ این پی اے کا نمبر بڑھتا جارہا ہے اور آج یہ دس لاکھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ رگھو راجن نے اشارے دئے ہیں یہ تعداد اور آگے بڑھ سکتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے چاہے وہ یوپی اے کی سرکار ہو چاہے این ڈی اے کی ہو دونوں نے ہی کمرشل بینکوں کی لاپروائی پر کس قدر آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ اگر ریزرو بینک بھی شروع سے کمرشل بینکوں کے چلانے اور لین دین پر سخت نظر رکھتا تو نیرو مودی، میہول چوکسی اور وجے مالیا جیسے بڑے گھوٹالے بازوں سے بینکوں اور دیش کو بچایا جاسکتا تھا۔ این پی اے پر شور مچنے کے بعد سرکار اور آر بی آئی بھلے ہی ٹھوس قدم اٹھانے کے دعوے کریں لیکن حالات امیدوں کے بجائے اندیشات ہی پیدا کردیتے ہیں۔ ہمارا تو یہی کہنا ہے کہ این پی اے کے مہا گھوٹالہ کا پردہ فاش ہونا چاہئے تاکہ قصوروار قانون کے شکنجے میں آسکیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں