جو جیسا ہے، اسی شکل میں تسلیم کیا جانا چاہئے!

ہم جنس پرستی اب بھارت میں جرم نہیں ہے۔ دیش، دور اور حالات بدلنے پر کس طرح قیمتی اقدار و قاعدے قوانین بدلے جاتے ہیں اس کی ہی مثال ہے ہم جنس پرستی پر سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ۔ عدالت عظمیٰ کی آئینی بنچ کے تازہ فیصلہ کے بعد تین دہائی سے بھی زیادہ عرصہ سے چل رہی قانونی لڑائی اب ختم ہوگئی ہے۔ جو کچھ لوگوں نے ذاتی زندگی کے متبادل کو جرم کے دائرہ سے باہر رکھنے کے لئے شروع کی تھی۔ یہ فیصلہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ ساتھ دوست جنسی خواہش والے دیگر لوگوں کے لئے بھی ایک بڑی راحت لیکر آیا ہے۔ یہ فیصلہ اس لئے بھی قابل غورہے کہ جس سپریم کورٹ نے آئی پی سی کی دفعہ377 کے اس حصوں کو ختم کیا جو بالغوں کے درمیان رضامندی سے بنائے گئے ہم جنس پرستی کے رشتوں کو جرم قرار دیا کرتے تھے اسی نے 2013 میں ایسا کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا تھا ، یہ کام پارلیمنٹ کا ہے۔ اتنا ہی نہیں اس نے اس فیصلہ پر نظرثانی عرضی کو بھی خارج کردیا تھا۔ 2013 میں سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے سال2000 میں دئے گئے اس فیصلہ کو پلٹنے کا کام کیا تھا جس میں دفعہ377 کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔ بیشک سپریم کورٹ نے آخر کار ہم جنس پرستی کے سلسلہ میں جو فیصلہ سنایا ہے وہ تاریخی اور اصلاح کن فیصلہ ہے جس کا ایل جی بی ٹی ہی نہیں بلکہ اصلاح پسند جمہوری سماج کو طویل عرصہ سے انتظار تھا۔ اس کے باوجود یہ سوال آج بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ دقیانوسی کی غلامی سے بری طرح جکڑاور اسی سلسلہ میں اپنی ماضی گزشتہ کی تشریح کرنے پر آمادہ ہمارا سماج کیا اسے دل سے قبول بھی کر پائے گا؟ عدالت نے دو بالغوں کے درمیان ہونے والے جنسی رشتوں کو جرم بتانے والی آئی پی سی کی دفعہ سے باہر نکلتے ہوئے جو اصول بنائے ہیں ان کی تشریح گہری اور دور تک جانے والی ہے۔ قانون شخص ، سماج اور دیش کے مفادات کو دھیان میں رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ اس لئے شاید بدلے حالات کے مطابق ان میں ترامیم ہوتی رہتی ہیں۔ حالانکہ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان تبدیلیوں کو لیکر سماج اور دیش کے سبھی لوگ متفق اور مطمئن ہوں یہ ضروری نہیں ہے۔ اس لئے اکثر قانونی تبدیلیوں کو لیکر اختلافی آوازیں بھی اٹھتی رہتی ہیں۔ہم جنس پرستی کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو نامناسب ٹھہرانے سے پہلے ٹرانسجینڈر کے معاملہ میں عدالت پہلے ہی فیصلہ دے چکی ہے۔سماج میں ٹرانسجینڈروں (ہیجڑوں)کو لیکر بھی اچھا نظریہ نہیں تھا۔ انہیں قانونی طور سے سرکاری حق بھی حاصل نہیں تھا۔ وہ ناپسندیدگی کی علامت تھے۔ اسی زمرے میں گنے جانے وال ہم جنس پرستوں کو بھی سماج میں حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں قانونی منظوری ملنے سے ایل جی بی ٹی کہے جانے والے لوگوں کو اب عام شہریوں کی طرح حق مل سکیں گے۔ حالانکہ سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی رشتوں کو منظوری فراہم کر ہندوستانی سماج کو پیغام دیا ہے کہ وہ دوستی کی جنسی علامت والے بھی احترام اور عزت سے جینے کے مجاز ہیں لیکن سماج کے اس حصے کا نظریہ بدلنے میں وقت لگے گا جو الگ جنسی برتاؤ کرنے والوں سے اپنے سے دوری بنانے اور ان کو عام انسان منافی مانتا چلا آرہا ہے۔ شاید انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ الگ جنسی برتاؤ والے بھی انسان ہیں اور انہیں اپنی پسند کے حسا سے زندگی جینے کا حق ہے۔ ہمارے مذاہب میں اس طرح کے رشتوں کو اچھا نہیں مانا گیا۔ یہاں تک کہ قرآن شریف میں تو اس پر پابندی ہے لیکن وقت اور حالات بدلتے ہیں اور سماج کو بھی اس کے مطابق بدلنا پڑتا ہے۔ اپنے اس تاریخی اور دور رس نتیجے والے فیصلہ میں چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ ہر بادل میں اندردھنش تلاش کیا جانا چاہئے۔ ان لوگوں کو شخصی پسند کی اجازت دی جانی چاہئے۔ ایل جی بی ٹی کے پاس بھی عام شہروں کے برابر حق ہیں۔ (اندردھنش ،جھنڈا) ایل جی وی ٹی کی علامت ہے۔ جسٹس وائی چندرچوڑ نے کہا کہ دفعہ 377 کے سبب ایل جی وی ٹی فرقے کا استحصال کیا جاتا ہے۔ ان کو بھی آئینی حق ہے۔ ہم تاریخ کو نہیں بدل سکتے لیکن بہتر مستقبل کے لئے راستہ نکال سکتے ہیں۔ وہیں جسٹس اندو ملہوترہ کا کہنا تھا تاریخ میں ایل جی وی ٹی فرقہ سے ان کی اذیت کے لئے معافی مانگنی چاہئے۔ یہ فرقہ ڈر کے سائے میں جینے کو مجبور تھا۔ انہیں جرم کے بوجھ سے نجات پا کر زندگی کا حق ہے۔ جسٹس نریمن نے کہا ہم جنس پرستی بیماری نہیں ہے بلکہ فطری دین ہے۔ سرکار اس فیصلہ کو ٹھیک طریقے سے سمجھائے تاکہ ایل جی وی ٹی فرقہ کو چھل پرست نہ سمجھا جائے۔ پارلیمنٹ کے ذریعے پاس ایکٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ ہم جنس پرستی دماغی وبا نہیں ہے۔ وہیں آر ایس ایس کے میڈیا چیف ارون کمار کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس جنس پرستی کو جرم نہیں مانتی لیکن ایک لنگ کے دو لوگوں کی عادت کی ہم حمایت نہیں کرتے۔ حقیقت میں ہندوستانی سماج اتنی وراثت والا ہے کہ اس نے کبھی جنسی رجحانوں کی بنیاد پر سماج میں سزا کی کوئی سہولت نہیں طے کی۔ اس لئے اپنی حقیقتوں کو بھول کر دقیانوسی اقدار میں جینے والے ہندوستانی سماج کے لئے سپریم کورٹ کے اس فراخدلانہ اور ترقی پسند فیصلہ کو قبول کرکے اس کے مطابق آزادی کا مطلب سمجھانے کی چنوتی ہے جو ایسے رشتوں کے مخالف ہیں انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ الگ جنسی برتاؤ والے بھی انسان ہیں اور اپنی پسند کے حساب سے انہیں اپنی زندگی جینے کا پورا حق ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا سماج کتنا بدلنے اور اسے سمجھنے کو تیار ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟