اپوزیشن کو بیک فٹ پر لانے کیلئے راؤ کا ایک اور داؤ
تلنگانہ کے وزیر اعلی چندر شیکھر راؤ نے جب 2 ستمبر کو حیدر آباد میں اپنی پوری طاقت کے ساتھ پرگتی نویدن سبھا کی تھی تبھی صاف ہوگیا تھا کہ وہ اسمبلی توڑ کر جلد چناؤ کرانے کی سفار ش کرسکتے ہیں۔ سبھی قیاس آرائیوں کو دور کرتے ہوئے تلنگانہ سرکار نے اسمبلی بھنگ کرنے کی سفارش کردی ہے۔ وزیر اعلی چندرشیکھر راؤ کی صدارت میں ہوئی کیبنٹ کی میٹنگ میں ایوان کو بھنگ کرنے کی سفارش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد راؤ راج بھون گئے اور ریزولوشن گورنر ای ایس ایل نرسمہن کو سونپ دیا۔ گورنر نے سفارش منظور کرلی ہے اور کے سی آر کو نگراں وزیر اعلی بنے رہنے کو کہا ہے۔ چناؤ کمیشن نے تلنگانہ کے نگراں وزیر اعلی کے سی آر کی پارٹی پر وقت سے پہلے اسمبلی چناؤ کیلئے دباؤ ڈالنے پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ راؤ نے شاید جمعرات کو مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ سمیت چار ریاستوں کے ساتھ چناؤ کرانے کے مقصد سے تلنگانہ اسمبلی کو 8 مہینے پہے ہی بھنگ کردیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اوپی راوت نے بتایا کہ چناؤ کمیشن وقت پر چناؤ کی تاریخ کا فیصلہ لے گا۔ راوت کا کہنا ہے چناؤ کو لیکر چندر شیکھرراؤ کے خیالات بیحد مایوس کن اور بے یقینی کی علامت ہیں۔ ہمیں سپریم کورٹ کے ذریعے جلد سے جلد چناؤ کرانے کے مجاز کیا گیا ہے اور اس میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے آگے کہا کہ سال 2002 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا تھا کہ اسمبلی بھنگ ہونے کے بعد نگراں سرکار کو چھ ماہ سے زیادہ وقت نہیں دیا جاسکتا تاکہ اقتدار میں بیٹھی سرکار کو اس کا فائدہ نہ مل پائے۔ اسمبلی بھنگ ہونے سے پہلے ہی موقعہ میں چناؤ کرانے کی سہولت ہے۔ حالانکہ چناؤ کمیشن نے صاف کیا کہ وہ کسی بھی دباؤ میں فیصلہ نہیں لے گا۔ تلنگانہ گورو اور جن کلیان کاری یوجناؤں کو کامیابی سے عمل درآمد کے بہانے چندر شیکھرراؤ نے وقت سے پہلے (8 مہینے) اسمبلی بھنگ کرنے کا اعلان کی ہمت دکھائی ہے۔ شاید چندر شیکھر راؤ کا خیال ہے کہ وہ وقت سے پہلے چناؤ کی وجہ سے اپوزیشن کی تیاریوں کو جھٹکا دے سکیں گے۔ وہ پردیش میں کانگریس اور بھاجپا کے فروغ کی حکمت عملی کو موقعہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ لوک سبھا چناؤ میں ملک گیر ماحول کا اثر ریاست کے چناؤ پر پڑنے کے اندیشے سے وزیر اعلی بچنا چاہتے تھے۔ تلنگانہ بننے کے بعد اس علاقہ میں پی ڈی پی کی بنیاد کمزور پڑ گئی ہے۔ اسمبلی میں ٹی آر ایس کے 90 ممبران اسمبلی ہیں۔ بڑی اپوزیشن پارٹی کی شکل میں کانگریس کے13 اور بھاجپا کے5 ممبر اسمبلی ہیں۔ اویسی کی جماعت اے آئی ایم آی ایم کے 7 ممبر اسمبلی ہیں۔ ٹی آر ایس کے آس پاس کوئی نظر نہیں آتا۔ کانگریس کا رد عمل کچھ یوں تھا۔ اس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہا کہ راؤ نے تلنگانہ کی جنتا کے ساتھ دھوکہ کیا ہے وہ بھاجپا اور وزیراعظم کی کٹھ پتلی ہیں۔ ظاہر ہے کہ راؤ بہت مضبوط دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے بعد راؤ کیا راؤ کا داؤ کامیاب ہوگا؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں