کیا دفعہ35-A آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف نہیں
جموں وکشمیر کے لوگوں کو مخصوص اختیار دینے والی آئین کی دفعہ 35-A کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر پیر کے روز سپریم کورٹ میں سماعت نہ ہوسکی۔ تین ججوں کی بنچ میں شامل جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کے نہ پہنچنے سے معاملہ 27 اگست کے بعد تک ٹل گیا ہے۔ حالانکہ چیف جسٹس دیپک مشرا نے صاف کیا کہ متنازعہ دفعہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف تو نہیں ہے اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس طرح جموں و کشمیر کے لئے یہ حساس اشو بن گیا۔ یہ معاملہ ایک بار پھر ٹل گیا۔ کشمیر میں اس نے خوف سا پھیلا دیا ہے کہ کہیں اسے ہٹا نہ دیا جائے۔
کشمیر میں شورش پیدا کرنے کا کاروبار صرف سرحد پار پاکستان سے ہی نہیں چلتا بلکہ اس کے لئے دیش کے اندر بھی کافی تنظیمیں اور طاقتیں موجود ہیں۔ انہیں دفعہ 35-A کے خلاف سپریم کورٹ میں چل رہے اس مقدمے کا نیا بہانہ مل گیاہے۔ ادھر وادی میں بند اور ہڑتال کے درمیان امرناتھ یاترا بھی ملتوی کرنی پڑی ہے۔ ریاست کی زیادہ تر سیاسی پارٹیاں اسے ہٹانے کے خلاف ہیں جبکہ دیش میں ایک طبقے کی رائے ہے کہ اس دفعہ کے ذریعے جموں وکشمیر کی پوزیشن کو کچھ زیادہ ہی پیچیدہ بنادیا گیا ہے۔ ’وی دی سٹیزنس‘ نام کی ایک انجمن نے اس کے خلاف عرضی دائر کی ہے۔ یہ دفعہ کسی بھی باہری شخص کو کشمیر میں زمین جائیداد خریدنے اور بیچنے کے حق سے محروم رکھتی ہے۔ ادھر علیحدگی پسند تنظیمیں ایسے موقعہ کی تلاش میں بیٹھی رہتی ہیں اور انہوں نے اس عرضی کو بھارت سرکار کی ایک فروغ وادی سازش بتا کر تحریک کا بگل بجا دیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک سپریم کورٹ نے اس معاملہ کی کسی طرح کی سماعت ابھی شروع نہیں کی ہے اس نے یہ طے کرنے کے لئے تین ہفتے کا وقت مانگا ہے۔ اس معاملہ کو آئینی بنچ کے پاس بھیجا جائے یا نہیں؟ یہ صورتحال سود نہ کپاس جولاہوں سے لٹھم لٹھا والی مثال ہے۔ اگر بھاجپا کے علاوہ ریاست میں سرگرم نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی اور کانگریس جیسی پارٹیوں نے جوں کے توں پوزیشن بنائے رکھنے کا مشورہ دیا ہے تو کشمیریت کے حمایتی شاہ فیصل جیسے اہم شہریوں نے اس دفعہ کا موازنہ اس نکاح نامے سے کیا ہے جو زندگی ساتھیوں کے رشتے کی بنیاد ہوتی ہے حالانکہ کشمیر میں باہری لوگوں کے ذریعے بے نامی پراپرٹی خریدوفروخت کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن آئین طور سے کوئی غیر کشمیری وہاں زمین نہیں لے سکتا۔ ایسا کرنے کے پیچھے جموں و کشمیر کی ایک خاص پہچان بنائے رکھنے کی ایک کوشش تھی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں