کیا کانگریس مکت نعرہ بھاجپا پر بھاری پڑنے لگا ہے

بھاجپا پردھان امت شاہ نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ پارٹی 2019 میں 400 سیٹیں جیتے گی اور 50 فیصد ووٹ حاصل کرے گی لیکن اگر حالیہ 14 ضمنی چناؤ نتائج کو دیکھیں تو یہ نشانہ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ نیتاؤں کو اندر خانے اس بات کی تشویش ضرور ستا رہی ہوگی کہ ان کی تو مقبولیت گھٹ ہی رہی ہے اور اپوزیشن مسلسل منظم ہوتی جارہی ہے۔ ان ضمنی چناؤ میں بھاجپا کی ہار نے اپوزیشن کیلئے یہ امید پیدا کردی ہے کہ اگر ہم متحدہوکر لڑے تو بھاجپا کو 2019 میں ہرایا جاسکتا ہے۔ کرناٹک اور اس کے بعد کے واقعات نے کانگریس صدر راہل گاندھی کی لیڈر شپ کو پختہ کردیا ہے۔ راہل مسلسل مودی سرکار پر حملے کررہے ہیں۔ کچھ دن پہلے راہل نے پی ایم مودی پر سیدھا حملہ کرتے ہوئے مندسور میں کہا کہ انہوں نے 15 لوگوں کا ڈھائی لاکھ کروڑ روپیہ معاف کیا لیکن کسانوں کو کچھ نہیں دیا۔ راہل نے مند سورکے پپلیامنڈی میں کسان گولی کانڈ کی برسی پر منعقدہ کسان اسمرتی سنکلپ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے صنعت کاروں کے پیسے معاف کرنے اور کسانوں کے قرض معاف نہ کرنے کو لیکریہ بات کہی۔ لوک سبھا کی چار اور اسمبلی کی 10 سیٹوں کے ضمنی چناؤ میں اپوزیشن اتحاد سے آئے نتائج سے گد گد کانگریس نے کہا بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہار یقینی کرنے کے لئے مختلف پارٹیاں بھاجپا مخالف ووٹوں کو بکھرنے سے روکنے کی حکمت عملی مل کر بنائیں۔ اپوزیشن اتحاد کا مقصد بھاجپا کو ہرانا ہے اور اس کے لئے کانگریس۔ بھاجپا مخالف ووٹوں کو بٹنے سے روکنے کی حکمت عملی پر سب سے مل کر کام کرے گی۔ مودی سرکار کو کسانوں کے لئے زیادہ ہی غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھاجپا نے کسان کو اس کی لاگت کی ڈیڑھ گنا ادائیگی کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن اسے پورا نہیں کیا گیا۔ کسانوں کو کم از کم قیمت دی جارہی ہے انہوں نے الزام لگایا کہ مودی 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے کی بات تو کہتے ہیں لیکن یہ کام 2052 تک بھی پورا نہیں ہوگا۔ راہل نے بغیر کسی کا نام لئے پارٹی کی مدھیہ پردیش یونٹ کے نیتاؤں کو زمینی سطح پر کام کرنے کی نصیحت دیتے ہوئے کہا کہ جو جنتا سے جڑے گا اسی کی اگلی سرکار بنے گی۔ نریندر مودی کے جادوئی کشش کے رتھ پر سوار بی جے پی نے 2014 کی جنگ فتح کرنے کے بعد جو پولیٹکل ایجنڈاسیٹ کیا تھا وہ تھا ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ ۔ شروعات میں تو لگا کہ انہوں نے اپنے حریفوں پر سائیکلوجیکل بڑھت حاصل کرلی ہے اور جب پارٹی اسے عملی جامہ پہنانے اتری تو ہار کا ماحول صرف مخالف خیمے میں ہی نہیں دکھائی دیا بلکہ خود این ڈی اے اتحادی پارٹیوں کو بھی بے چین کرنے لگا۔ جہاں تک کانگریس مکت نعرہ کا تعلق ہے کانگریس پارٹی کو کرناٹک و ضمنی چناؤ میں کانگریس کو نئی سنجیونی دی ہے اور راہل گاندھی نئے اوتار میں دکھائی دینے لگے ہیں۔ بھاجپا کی جارحانہ پالیسی کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے دوست کم کئے ہیں اور دشمن زیادہ تیار کرلئے ہیں۔ اس صورت میں سیاسی فائدہ کم نقصان زیادہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس طرح ایک طرف تو خود بی جے پی نے کانگریس کو پھر سے زندہ کردیا ہے دوسری طرف پورے دیش میں اپوزیشن کو متحد ہونے کا موقعہ دے دیا ہے۔ بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ اگلے سال ہونے والے لوک سبھا چناؤ میں 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے کا ٹارگیٹ رکھا ہے حالانکہ آج تک کی تاریخ میں بھاجپا اس نمبر کو کبھی چھو نہیں پائی۔ اسمبلی چناؤ میں بھی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسمبلی چناؤ میں گجرات کی جنتا نے چار پار اسی پارٹی کو آدھے سے زیادہ ووٹ دئے مگر ہر بار یہ پارٹی کانگریس رہی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!