ٹرمپ کا شاندار کارنامہ، کم جانگ اُن کو بات چیت کیلئے رضامند کرنا

ابھی چند ماہ پہلے ہی کی بات ہے دہشت پورے ایشیا پر حاوی تھی۔ نارتھ کوریا ایک کے بعد ایک نیوکلیائی بم اور انٹرکونٹینینٹل میزائلیں داغ رہاتھا۔ آئے دن وہ امریکہ کو دھمکیاں دیتا تھا کہ ہم تمہیں تباہ کردیں گے۔ دوسری طرف امریکہ کی دھمکیوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے بمبار بس نارتھ کوریا پرحملہ بولنے والے ہیں لیکن وقت ایسا پلٹا کہ قریب 70 سال پرانی دشمنی بھلا کر امریکہ اور نارتھ کوریا کے نیتا منگل کے روز آپس میں ملے تو دنیا میں امن قائم رہنے کی امید کو نئے پنکھ لگ گئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نارتھ کوریا کے لیڈر کم جانگ اُن کے درمیان قریب 45 منٹ تک تاریخی چوٹی کانفرنس ہوئی۔ سنگاپور میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نارتھ کوریا کے صر کم جانگ ان کی ملاقات پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئیں تھی تو یہ فطری ہی تھا۔ پچھلے کئی برسوں سے دنیا کا یہ وہ سب سے خطرناک زون بنا ہواتھا۔ نارتھ کوریا کے ذریعے مسلسل ایٹمی تجربوں سے صرف جزیرے میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ تناؤ کے اس ماحول میں اچانک ہی سمجھداری کہاں سے آگئی یہ کہنا تو مشکل ہے لیکن منگلوار کو سنگاپور میں جب نارتھ کوریا کے نیتا کم جانگ ان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدہ پر دستخط کئے تو ساری قیاس آرائیاں دور ہوگئیں۔ یقینی طور پر یہ ایک تاریخی معاہدہ تھا اور تاریخی موقعہ بھی۔ نارتھ کوریا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بہت جلد اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی شروعات کرے گی حالانکہ جس رضامندی پر دونوں میں دستخط ہوئے اس میں یہ واضح نہیں ہے کہ نیوکلیائی ہتھیاروں کے خاتمے یعنی ڈی نیوکلیئرائزیشن کا کیا مطلب ہے؟ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ دونوں ہی دیش اس لفظ کی الگ الگ تشریح کرسکتے ہیں لیکن فی الحال یہ تکنیکی اشو اہم نہیں ہے اہم ترین یہ ہے کہ دونوں دیشوں کے نیتا ایک ساتھ بیٹے۔ دونوں نے پانچ گھنٹے تک بات چیت کی اور بات چیت بڑی امید افزا ماحول میں ختم ہوئی۔ اسے پرامن رشتوں کی منزل تک پہچانے کیلئے ابھی لمبا سفر طے کرنا ہوگا لیکن باوجود اس کے یہ ملاقات ایسی شروعات ہے جسے ڈپلومیٹک سطح پر ٹرمپ کی مجموعی انتظامیہ کی سب سے بڑی کامیابی مانا جاسکتا ہے۔ نارتھ کوریا پر لگی سخت بین الاقوامی پابندیوں نے بھی اس کے پیچھے یقینی طور پر ایک اہم رول نبھایا ہوگا۔ یقینی طور سے کشیدگی کی تاریخ کے پیچھے پھوٹ بھی دکھائی دے رہی ہے لیکن پوری طرح پیچھا چھوٹے گا یہ دونوں ملکوں پر منحصر ہے۔ کم جانگ ان کو اپنی بات پر قائم رہنا پڑے گا اور سمجھوتے کو پوری طرح نافذ کرنا ہوگا۔ تبھی یہ معاہدہ صحیح معنوں میں تاریخی رہے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!