گنا کسانوں کو پیکیج سے کتنی راحت
مرکزی سرکار نے گنا کسانوں کو اور چینی ملک مالکوں کو راحت دینے کے لئے 8500 کروڑ روپے کا جو پیکیج جاری کیا ہے وہ کسانوں کے بقایاجات کی ادائیگی کے علاوہ چینی ملکوں کی پیداوار صلاحیت بڑھانے وغیرہ پرمرکوز ہے جس سے بیشک پچھلے کچھ وقت سے جاری پریشانی دور ہوگی۔ حالانکہ اس وقت کہنا مشکل ہے لیکن اس پیکیج سے حالات کتنے سدھریں گے۔ اس وقت چینی صنعت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ پیداوار اور زیادہ اسٹاک ہونے سے چینی کے دام بازار میں کافی گر گئے ہیں۔ بھارت میں چینی کھپت 2.50 کروڑ ٹن کے آس پاس ہے جبکہ پیداوار 3.15 کروڑ ٹن سے زیادہ ہورہی ہے۔ ملکوں کے لئے گنا کسانوں کا قریب 22 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس پیکیج سے چینی ملکوں کی حالت تو بہتر ہوگی لیکن اس میں گنا کسانوں کی بھلائی کے لئے بہت زیادہ رقم نظر نہیں آتی۔ اسی پیسے سے چینی ملکوں کی پیداوار صلاحیت بڑھانے کے لئے سستا قرض مہیا کرایا جانا ہے۔ چینی کا 30 لاکھ ٹن بہت زیادہ اسٹاک بھی بنایا جانا ہے۔ اس پر 1200 کروڑ روپے خرچ ہوں گے لیکن گنا کسانوں کے بقائے کی ادائیگی کے لئے صرف 1 ہزار 540 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ گنا کسانوں کے لئے اس فوری راحت سے کچھ زیادہ کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ امدادی رقم سے مل مالکوں کو بڑی راحت ملے گی۔ چینی ملکوں پر کسانوں کا بقایا کوئی آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ مل مالکوں کا ہمیشہ سے یہی رویہ رہا ہے کہ گنا کسانوں کو کبھی وقت سے پیسہ نہیں د یا جاتا۔ سالوں سال کسان بقایا کے انتظار میں گزار دیتے ہیں۔ تحریک اور کئی بار خودکشی جیسے قدم بھی اٹھا لیتے ہیں۔ ملکوں کے لئے گنا کسانوں کا قریب22 ہزار کروڑ روپے ادائیگی کرنا مشکل ہوگیا تو سب سے پہلی ضرورت قیمت کو اس سطح پر لانے کی ہے جس سے کسانوں کو کم سے کم ان کی لاگت تو ملے کیونکہ گنا کسانوں کے بقایا چینی ملکوں کے ذریعے ہی ہونا ہے۔ ایسے میں اس کی گارنٹی ہونی چاہئے ان کو بقائے کی پوری ادائیگی وقت پر ہو۔سرکار اس پیکیج کو تاریخی بتا رہی ہے جبکہ اس کے بجائے اس کو یہ فیصلہ چینی صنعت سے جڑے تضاد اور سرکار کے بدلتے عزم کی مثال ہے۔ ابھی زیادہ وقت نہیں ہوا اس نے دیش میں چینی کا اسٹاک ہوتے ہوئے بھی صارفین کے مفاد میں سستی چینی برآمد کی تھی لیکن اب گناکسانوں کے مفاد میں آناً فاناً میں ایکسائز ٹیکس دوگنا کرکے ایکسپورٹ ٹیکس ختم کردیا ہے۔اقتصای پالیسی کے دور میں یہ سرکاری سرپرستی کی بہتر مثال ہی نہیں بلکہ اس کا ثبوت بھی ہے کہ سرکار ممکنہ طور پر اس سیکٹر کے مسئلہ کو سمجھنا ہی نہیں چاہتی۔ گنا کسانوں کی ٹریجڈی یہ ہے کہ زیادہ پیداوار کے باوجود انہیں نہ تو اس کی منافع قیمت مل پاتی ہے اور نہ ہی ملوں سے وقت پر پیسہ ملتا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں