پبلک سیکٹربینکوں کی حالت مسلسل خستہ ہوتی جارہی ہے

سرکاری بینکوں کی حالت انتہائی مایوس کن بنی ہوئی ہے۔ ایک طرف بڑھتا ڈوبا قرض (این پی اے) جارہا ہے تو دوسری طرف ہزاروں کروڑ روپے کا خسارہ ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے ہم اپنی معیشت کی صحت کو مسلسل گرتی مان سکتے ہیں۔ 1 دسمبر 2016 میں یہ دونوں بینکوں میں جو این پی اے 8 لاکھ40 ہزار 900 کروڑ روپے تھا وہ 31 مارچ 2018 کو بڑھ کر 10 لاکھ 25 ہزار کروڑ تک پہنچ گیا ہے۔ ان میں چار لاکھ کروڑ دیش کے بڑے صنعت کاروں کے بھی ڈوبے قرض شامل ہیں۔ ہماری معیشت اور بینکنگ سیکٹر کی افراتفری دیکھ کر غیر ملکی سرمایہ کار بھی جنوری سے مارچ 2018 تک کے بیچ 32 ہزار 78 کروڑ روپے نکال چکے ہیں اور یہ نکالنا جاری ہے۔ اب چونکانے والی خبر آئی ہے پبلک سیکٹر بینکوں کا مجموعی کرنسی خسارہ مالی سال 2017-18 میں بڑھ کر 85370 کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ گھوٹالہ کی مار جھیل رہے پنجاب نیشنل بینک کو سب سے زیادہ نقصان ہوا جبکہ آئی ڈی بی آئی بینک اس معاملہ میں دوسرے پائیدان پر ہے۔ بینکوں کے ذریعے جاری سہ ماہی اعدادو شمار کے مطابق مالی برس کے دوران انڈین بینک اور وجے بینک کو چھوڑ کر باقی بینکوں کو کل ملا کر 85370 کروڑ روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے مالی سال2016-17 میں ان 21 بینکوں کو کل 473.72 کروڑ روپے کا خالص منافع ہوا تھا۔ اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ 14 ہزار کروڑ روپے کے گھوٹالہ کی مارجھیل رہے پنجاب نیشنل بینک کو اس بار سب سے زیادہ خسارہ ہوا ہے۔ جبکہ مالی برس 2016-17 میں اس نے 1324.8 کروڑ روپے کا منافع کمایاتھا۔ پبلک سیکٹروں کی بدحالی کو دیکھتے ہوئے اب لوگ اپنے پیسوں کو بینکوں میں محفوظ نہیں مانتے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دیش کی جنتا میں نقدی کی سطح 18.5 لاکھ روپے سے اوپر پہنچ گئی ہے۔ یہ اب تک کی سب سے زیادہ سطح ہے۔ یہ نوٹ بندی کے دور کے مقابلہ میں دوگنے سے زیادہ ہے۔ نوٹ بندی کے بعد جنتا کے ہاتھ میں کرنسی سمٹ کر قریب 7.8 لاکھ کروڑ روپے رہ گئی تھی۔ بھارتیہ ریزرو بینک کے اعدادو شمار سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔ آر بی آئی کے مطابق چلن میں موجودہ کل کرنسی سے بینکوں کے پاس پڑی نقدی کو گھٹا دینے پر پتہ چلتا ہے کہ چلن میں کتنی کرنسی لوگوں کے ہاتھوں میں پڑی ہے۔ قابل ذکر ہے کچھ مہینے پہلے دیش کے مختلف حصوں میں نقدی بحران کی خبریں بھی آئی تھیں جبکہ اس کے برعکس لوگوں کے پاس بڑی مقدار میں نقدی موجود ہے۔ غور طلب ہے کہ نوٹ بندی کے بعد قریب 99 فیصد کرنسی بینکنگ سسٹم میں واپس آگئی تھی۔ تازہ اعدادو شمار کے مطابق لگتا ہے کہ جنتا کا بینکوں سے بھروسہ اٹھتا جارہا ہے اور وہ اپنا پیسہ گھروں میں زیادہ محفوظ مانتے ہیں۔ اس سے تمام صنعتی سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں اور بینکوں کی حالت لگاتار خستہ ہوتی جارہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟