ریسرچ اسکالر منان وانی بنا دہشت گرد
اگر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اے ایم یو میں ریسرچ اسکالر منان بشیروانی کے دہشت گرد تنظیم حزب المجاہدین میں شامل ہونے کی خبر صحیح ہے تو یہ چونکانے والی تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ تشویش بھی پیدا کرتی ہے۔ کوئی انپڑھ اگر کسی مجبوری کے سبب دہشت گردی کا سہارا لیتا ہے تو بات سمجھ آتی ہے مگر ریسرچ اسکالر دہشت گردی کے راستے پر چلا جائے یہ چونکانے والی بات ضرور ہے۔ اب پہلا والا تصور کمزور ہوتا جارہا ہے کہ غریب، کم پڑھا لکھا یا بے روزگار نوجوان ہی جہادی پروپگنڈہ کا شکار ہوتا ہے اور دہشت گرد بنتا ہے۔ یہ ہی نہیں ہم نے کئی آتنکی ایسے دیکھے ہیں جو نہ صرف اعلی تعلیم یافتہ ہیں بلکہ کئی تو انجینئر اور ڈاکٹری کے پیشے میں تھے۔ حزب المجاہدین کا دہشت گرد رہا برہان وانی بھی اے ایم یو سے ریسرچ کررہا تھا۔ سری نگر میں ایک نیوز ایجنسی کو پیر کو دئے گئے بیان میں حزب المجاہدین کے چیف سید صلاح الدین نے کہا کہ منان وانی کا ہماری تنظیم میں شامل ہونا ہندوستانی پروپگنڈہ کی پول کھولتا ہے کہ کشمیری نوجوان بے روزگاری اور اقتصادی تنگی کے سبب دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوتاہیں۔اردو میں دئے گئے بیان میں صلاح الدین نے وانی کے حزب المجاہدین میں شامل ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کئی برسوں سے تعلیم یافتہ اور لائق کشمیری نوجوان حزب المجاہدین میں شامل ہورہے ہیں۔ نارتھ کشمیر کے کپواڑہ ضلع کے لولاب علاقہ کا رہنے والا وانی پچھلے ہفتے لاپتہ ہوگیا تھا۔ اسے 4 جنوری سرحد پار کر لوٹنا تھا۔
سوشل میڈیا پر اے کے ۔47 رائفل کے ساتھ اس کی تصویر سامنے آنے کے بعد خبریں آرہی تھیں کہ شاید وہ آتنکی تنظیم میں شامل ہوگیا ہے۔ جس کے بعد اے ایم یو نے 25 سالہ اس ریسرچ اسکالر کو نکال دیا تھا۔ حزب المجاہدین کا آتنکی رہا برہان وانی بھی اے ایم یو میں ریسرچ کررہا تھا۔ ویسے دہشت گردی کے خونی کھیل میں صرف بھارت کے ہی بچے نہیں پھنسے ہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ اور حیرت انگیز طریقے سے پڑوسی بنگلہ دیش کے نوجوان بھی ہیں۔ پچھلے سال 2016-17 میں ڈھاکہ کے ریستوراں میں مار گرائے آتنکیوں میں سے سبھی رئیس گھروں کے اور شریف بچے تھے۔ امریکی جانچ ایجنسی کے مطابق امریکہ پر 9/11 حملہ میں شامل دو تہائی آتنکی تعلیم یافتہ تھے۔ اعدادو شمار پر بھروسہ کریں تو دنیا بھر میں قریب 62 فیصدی آتنکی نہ صرف تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ان کی فیملی بیگ گراؤنڈ بھی کافی اچھا ہے۔ سیکورٹی محکمے کی ایک بڑی چنوتی سوشل میڈیا پر لگام کسنے کی بھی ہے جہاں سے نوجوان دہشت گردی کے راستے پر چلنے کے لئے راغب ہورہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اے کے ۔47 رائفل کے ساتھ اس کی تصویر سامنے آنے کے بعد خبریں آرہی تھیں کہ شاید وہ آتنکی تنظیم میں شامل ہوگیا ہے۔ جس کے بعد اے ایم یو نے 25 سالہ اس ریسرچ اسکالر کو نکال دیا تھا۔ حزب المجاہدین کا آتنکی رہا برہان وانی بھی اے ایم یو میں ریسرچ کررہا تھا۔ ویسے دہشت گردی کے خونی کھیل میں صرف بھارت کے ہی بچے نہیں پھنسے ہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ اور حیرت انگیز طریقے سے پڑوسی بنگلہ دیش کے نوجوان بھی ہیں۔ پچھلے سال 2016-17 میں ڈھاکہ کے ریستوراں میں مار گرائے آتنکیوں میں سے سبھی رئیس گھروں کے اور شریف بچے تھے۔ امریکی جانچ ایجنسی کے مطابق امریکہ پر 9/11 حملہ میں شامل دو تہائی آتنکی تعلیم یافتہ تھے۔ اعدادو شمار پر بھروسہ کریں تو دنیا بھر میں قریب 62 فیصدی آتنکی نہ صرف تعلیم یافتہ ہیں بلکہ ان کی فیملی بیگ گراؤنڈ بھی کافی اچھا ہے۔ سیکورٹی محکمے کی ایک بڑی چنوتی سوشل میڈیا پر لگام کسنے کی بھی ہے جہاں سے نوجوان دہشت گردی کے راستے پر چلنے کے لئے راغب ہورہے ہیں۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں