عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا امیدوار

عام آدمی پارٹی نے اپنے نیتا سنجے سنگھ، کاروباری سشیل گپتا اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ این ڈی گپتا کو دہلی کی تین راجیہ سبھا سیٹوں کیلئے اپنا امیدوار اعلان کیا ہے۔ اس ایوان بالا میں بھیجنے کیلئے جن افراد کا انتخاب کیا ہے اس سے نہ صرف سیاسی حلقوں میں حیرانی ہوئی ہے بلکہ پارٹی میں بغاوت کی آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں۔ کچھ عرصے سے امیدواری کے لئے جو نام سب سے زیادہ گشت کررہے تھے ان میں سنجے سنگھ کو چھوڑ کر باقی سب کو کنارے کردیا گیا ہے۔ کوئی پارٹی راجیہ سبھا یا کسی ایوان کے لئے کسے اپنا امیدوار بناتی ہے یہ اس کا اندرونی معاملہ ہوسکتا ہے۔ عام طور پر سبھی پارٹیاں یہی دلیل پیش کرتی ہیں لیکن عاپ کی جانب سے جو دو نئے نام سامنے آئے ان کے چناؤ پر نہ صرف دوسری پارٹیوں کو پارٹی پر انگلی اٹھانے کا موقعہ ملا ہے ، بلکہ شروعاتی دنوں سے ہی پارٹی کے ساتھ رہے اور اب کسی نہ کسی وجہ سے باہر ہوگئے ان لوگوں نے بھی حیرانی ظاہر کی ہے۔ مانا جارہا تھا کہ پارٹی نیتا آشوتوش کے علاوہ اختلافات کی تمام خبروں کے باوجود کمار وشواس کو راجیہ سبھا کے لئے امیدوار بنایا جاسکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوا اور ان کی جگہ ایک صنعتکار اور ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کو چنا گیا ہے۔ ان دو افراد کے انتخاب سے نہ صرف سیاسی واقف کاروں کو تعجب ہوا بلکہ یہ بھی یقینی ہوگیا کہ اس دیش میں متبادل سیاست کے لئے کوئی زمین نہیں بچی ہے۔ عام آدمی پارٹی کا عام آدمی کے لئے اور عام آدمی کے ذریعے حکومت چلانے کا دلچسپ اور لوک لبھاون نعرہ گھڑنے والے اروندکیجریوال کی پارٹی عاپ اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے کلچر کی طریقہ کار میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ دراصل یہ کیجریوال کی مجبوری ہے کیونکہ آج ہندوستانی جمہوریت اور ہندوستان کی چناوی سیاست جس طرح سے دھن اور دبنگی کی علامت بن گئی ہے، اس میں سادگی ، ایمانداری اور سچے لوک سیوکوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ جو اس کوٹھری میں رہے گا اس کی قمیص پر سیاہ داغ لگنا ہی ہے۔ حالانکہ دیگر پارٹیوں پر ایسے الزامات لگتے رہے ہیں کہ کسی کو موٹی رقم کے بدلے ٹکٹ دیا گیا یا پھر ان کی پرکشش شخصیت کا خیال رکھا گیا لیکن عام آدمی پارٹی نے بھی اگر اس دیش کی سیاست میں ہٹ کر ایک خطرناک کلچر سے بچے کی کوشش نہیں کی تو اس پر سوال زیادہ تلخ اٹھیں گے۔ آخر عاپ کی تشکیل کے وقت یا اس سے پہلے ہی اس کے نیتا اروند کیجریوال کا سب سے بڑا دعوی کیا رہا؟ ہندوستانی سیاست میں پھیلے کرپشن کے خلاف لڑائی کے ساتھ ہی انہوں نے لوگوں کے درمیان ایک نئی سیاست کی شروعات کے لئے امید جگائی تھی۔ اس کے الٹ آج اگر وہ پیسے لیکر ٹکٹ بانٹنے کے علاوہ اپنی پارٹی کے ہی نیتاؤں پرلگنے والے کرپشن کے الزامات کی سنجیدگی کی کاٹ نہیں کر پارہے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ سشیل گپتا کانگریس کے ٹکٹ پر موتی نگر سیٹ سے 2013 کا اسمبلی چناؤ لڑ چکے ہیں اور عام آدمی پارٹی کے کٹر مخالف رہے ہیں۔ پارٹی کا اعلی لیڈر شپ دعوی کررہی ہے کہ وہ بالائی ایوان میں سرکردہ لوگوں کو بھیجنا چاہتی تھی۔ 18 لوگوں کی فہرست تیار کی گئی تھی لیکن ان سے رابطہ کرنے پر کوئی بھی اس کے لئے راضی نہیں ہوا۔ یہ اپنے آپ میں ایک سنگین سوال ہے۔ یا ان کا بھروسہ اور ساکھ اتنی گر گئی ہے کہ کوئی نامور شخص ان کے ساتھ جڑنا نہیں چاہتا تھا۔ یا کوئی دوسرا مسئلہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عاپ اور ان کے نیتاؤں کو اپنی ساکھ کی کوئی فکر نہیں رہ گئی ہے اور عام آدمی پارٹی ہندوستانی سیاست کی انہی بیماریوں سے دنوں دن اور بھی متاثر ہوتی جارہی ہے جنہیں دور کرنے کا اس نے دعوی کیا تھا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!