دھارمک مقامات سے لاؤڈاسپیکر ہٹانے کامعاملہ
الہ آباد ہائی کورٹ نے 20 دسمبر کو اترپردیش سرکار سے پوچھا تھا کہ مندر،مسجد، گورودوارہ اور دیگر پبلک مقامات پر لگے لاؤڈ اسپیکر انتظامیہ کی تحریری اجازت سے لگائے گئے ہیںیا نہیں؟ اگر نہیں تو انہیں ہٹانے کے لئے حکومت کی طرف سے کیا کارروائی کی گئی؟ اس پر ریاستی حکومت نے سبھی ضلعوں سے معلومات اکٹھی کرنی شروع کردی تھی۔ ٹیم پتہ کرے گی کہ کتنے دھرمااستھلوں پربغیر اجازت کے لاؤڈ اسپیکر بجائے جارہے ہیں۔ جن دھرم استھلوں کے پاس اجازت نامہ نہیں ہے ان کے منتظمین کو15 جنوری سے پہلے اجازت حاصل کرنے کے لئے درخواست کا فارم دستیاب کرایا جانا چاہئے۔ اس میں دو رائے نہیں آواز آلودگی دنوں دن بڑھتی جارہی ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ چاہے ہوا اور پانی کی آلودگی بڑھتی جارہی ہے ویسے ہی ماحول میں ’شور آلودگی‘ بڑھ رہی ہے۔ آئے دن جلوس نکلتے رہتے ہیں اور ان میں حصہ لینے والوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دور تک ماحول گونجنا چاہئے۔ شادی کے سیزن اور تہواروں میں بھی شور بڑھ جاتا ہے۔ بینڈ باجوں کا شور تو رہتا ہی ہے پٹاخوں کی آواز پالوشن اور ہوائی پالوشن دونوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ دن رات کا لحاظ بھی نہیں کیا جاتا۔ مندروں ، مسجدوں میں مذہبی کام کا حصہ مان کر کوئی انہیں روکتا ٹوکتا نہیں ہے۔ نہ کوئی پولیس میں شکایت کرتا ہے۔ کوئی کرے بھی تو پولیس ایسے معاملوں میں پڑنا نہیں چاہتی اور الٹے شکایت کنندہ کو اور منتظمین کی ناراضگی جھیلنی پڑتی ہے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ شور آلودگی پر لگام لگے۔ اترپردیش نے اس کی شروعات کی ہے۔ البتہ یہ سرکاری پہل کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک عدالتی حکم کا نتیجہ ہے۔ ہائی کورٹ کے اس حکم کو کچھ دھارمک نیتاغلط بتا رہے ہیں۔ شنکر آچاریہ سوامی سروپ آنند سرسوتی نے کہا کہ کسی ایک مذہب کے خلاف کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کارروائی کرنی ہے تو سب سے پہلے مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر ہٹوائیں اور پھر ہمارے یہاں دیکھیں۔ ہائی کورٹ کے اس حکم کی تعمیل ریاستی سرکار کے لئے آسان نہیں ہوگی۔ اگر سرکار کو کارروائی کرنی ہے تو ایک ساتھ سبھی شور کرنے والوں پر کرنی ہوگی۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری دھارمک روایت کے خلاف ہے اور عدالت و سرکار ہمارے مذہبی کاموں میں دخل اندازی کررہی ہے۔ اس کو روکنے کے لئے عام رائے بنانے کی کوشش ہونی چاہئے نہ کہ زور زبردستی سے عمل کیا جائے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں