دہشت گردی سے جڑنے کیلئے راغب کرتے ہیں مدارس

اترپردیش سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین سید وسیم رضوی نے وزیر اعظم کو ایک خط بھیجا ہے جس میں انہوں نے مدرسوں کو بند کرنے کی مانگ کی ہے۔ اس خط میں دیش بھر میں چل رہے مدرسوں کیلئے جنرل تعلیمی پالیسی بنائی جائے۔ کارپوریشن نے الزام لگایا ہے کہ ایسے اسلامی اسکولوں میں دی جارہی تعلیم طلباء کو دہشت گردی سے وابستہ کرنے کیلئے ترغیب دیتی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ مدرسے بچوں کو کٹر پسند بنا رہے ہیں جس سے وہ آتنک وادیوں کے آسان شکار بنتے جارہے ہیں۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ کتنے مدارس نے انجینئر، ڈاکٹر و آئی اے ایس افسر تیار کئے ہیں؟ البتہ کچھ مدارس سے دہشت گرد ضرور پیدا ہوئے ہیں۔ یہ ہی نہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ زیادہ تر مدارس ذکات یعنی عطیہ کے پیسوں سے چل رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے یہ پیسہ دیش کے علاوہ بنگلہ دیش ، پاکستان جیسے ممالک سے آتا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مدارس کی جگہ پر ایسے اسکول بنیں جو سینٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن یا آئی سی ایس ای سے الحاق ہوں۔ ایسے اسکول طلبا کے لئے اسلامی تعلیم کو ایک متبادل مضمون کی پیشکش کریں گے۔ بورڈ نے تجویز پیش کی ہے کہ سبھی مدرسہ بورڈ کو بھنگ کردیا جانا چاہئے۔ شیعہ سینٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے دعوی کیا کہ دیش کے زیادہ تر مدرسے منظور شدہ نہیں ہیں۔ ایسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبا بے روزگاری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے مزید دعوی کیا کہ ایسے مدارس تقریباً ہر شہر، قصبے اور دیہات میں کھل رہے ہیں اور ایسے ادارہ گمراہ کرنے والی مذہبی تعلیم دے رہے ہیں۔ انہوں نے الزام کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مدارس کے چلانے کے لئے پیسے پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی آتے ہیں اور کچھ آتنک وادی تنظیمیں بھی ان کی مدد کرتی ہیں۔ اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان خلیل الرحمان سجا د نعمانی نے کہا کہ آزادی کی لڑائی میں مدرسوں کا اہم ترین اشتراک رہا ہے اور رضوی ان پر سوال اٹھا کر ان کی توہین کررہے ہیں۔ مولانا خالد رشید پھرنگی محلی (امام عید گاہ لکھنؤ) نے کہا کہ رضوی کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ مدرسے نے ہی دیش کو مولانا ابوالکلام آزاد جیسا پہلا وزیر تعلیم دیا۔ یہ ہی نہیں میزائل مین اے پی جے عبدالکلام کی ابتدائی تعلیم بھی مدرسے میں ہوئی تھی۔ اے آئی ایم آئی ایم کے اسدالدین اویسی نے کہا کہ رضوی نے آرایس ایس کو اپنا ضمیر بیچ دیا ہے اور ان کے پاس مدرسوں میں آتنکی پیدا ہونے کا کوئی ثبوت ہو تو اسے وزیر داخلہ کو دکھائیں۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ مدرسوں میں نگرانی کو لیکر چل رہی بحث کے درمیان پاکستان نے دہشت گردوں کے گڑھ مانے جانے والے خیبرپختون خواہ میں مدرسوں پر شکنجہ کسنا شوع کردیا ہے۔ وہاں کی حکومت نے مدرسوں کو اب سیدھے سرکاری کنٹرول میں لے لیا ہے۔ ان کا رجسٹریشن ، نصاب، پڑھائی اور نگرانی محکمہ اسکول کے ماتحت کردی گئی۔ مانا جارہا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی سپلائی لائن کاٹنے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ دراصل 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت فوج کے خلاف لڑائی کیلئے آتنکی پیدا کرنے میں خیبرپختون خواہ علاقہ میں بڑے پیمانے پر مدرسے کھولے گئے تھے۔ کبھی پاکستان حکمت عملی کا حصہ مانے جانے والے مدرسے اب اس کے ہی گلی کی پھانس بن گئے ہیں۔ یہاں تک کہ مدرسوں کی پہچان ان سے جڑے آتنکی و کٹر پنتھی تنظیم کے ساتھ جڑاؤ کو لیکر ہونے لگی ہے۔ سیکورٹی ماہرین کا خیال ہے کہ پورے پاکستان میں پھیلے مدرسوں سے نکلنے والے طالبعلم دہشت گرد تنظیموں اور کٹر پسند جماعتوں کی لائف لائن بن گئے ہیں۔ پچھلے دنوں اسلام آباد میں کٹر پسند جماعتوں کے دھرنے کے سبب بھڑکے تشدد اور اس کی مانگ کے آگے جھکتے ہوئے وزیر قانون کے استعفیٰ کے بعد پاکستان میں مدرسوں پر شکنجہ کسنا تیز ہوگیا ہے۔ یہاں توجہ دینی کی بات یہ ہے کہ خیبر پختون خواہ میں عمران خان کی پارٹی پاکستانی میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق خیبر پختونخواہ سرکار نے سبھی مدرسوں کو اب اسکولی تعلیم محکمے میں رجسٹریشن کرانے کولازمی قراردیا ہے۔ اسکولی محکمہ تعلیم بھی اب ان مدرسوں کا نصاب تیار کرے گا اور طلبا ء کا امتحان بھی لے گا۔ اس کے ساتھ ہی اسکولی تعلیم محکمہ ان مدرسوں کی نگرانی کرے گا۔ ادھر وسیم رضوی نے وزیر اعظم کو خط میں آگے لکھا ہے کہ مدرسوں میں دی جارہی تعلیم آج کے ماحول کے حساب سے جائز نہیں ہے اور اس لئے وہ دیش میں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد کو بڑھاتی ہے۔
رضوی نے کہا کہ مدرسوں سے پاس ہونے والے طلباء کو روزگار ملنے کے امکانات کافی کم ہیں اور انہیں اچھی نوکریاں نہیں ملتیں۔ زیادہ سے زیادہ اردو ترجمان یا ٹائپسٹ کی نوکریاں مل جاتی ہیں۔ بھاجپا نے کہا ہے کہ مرکز اور اترپردیش سرکار اترپردیش کی بھاجپا سرکاروں کے پاس مدرسوں کو بند کرنے کا کوئی پلان نہیں ہے۔ پارٹی کے ترجمان سید شاہ نواز حسین نے دعوی کیا کہ اس کے بجائے سرکاریں مدرسوں میں جدید تعلیم مہیا کرانے کی سمت میں کام کررہی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟