سپر اسٹار رجنی کانت نئے کردار میں

تامل سنیما کے سپر اسٹار رجنی کانت نے نیا سال آتے ہی اپنے لئے ایک نیا کردار چن لیا ہے۔ ایتوار کو کئی دنوں تک سسپنس کے بعد انہوں نے سیاست میں آنے کا اعلان کیا۔ اسی کے ساتھ ہی بہت لمبے عرصے سے لگائی جارہیں قیاس آرائیوں کو خاتمہ ہوگیا۔ ان کے اس اعلان سے تاملناڈو کی سیاست میں نیا موڑ تو آئے گا ہی بلکہ قومی سیاست میں بھی اس کا اثر ہوگا۔ رجنی کانت کوئی عام ایکٹر نہیں ہیں۔ ان کے لاکھوں چاہنے والوں کے لئے وہ اپنے آپ میں ایک آئیکون ہیں اور پوجے جاتے ہیں۔ ان کا جادو لوگوں کے سر پر اس قدر چڑھ کر بولتا ہے اس کے بہت سے ثبوت وقتاً فوقتاً ملتے رہتے ہیں۔ یوں تو تاملناڈو کی سیاست میں دہائیوں سے انا ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے دونوں کے درمیان سیاست بٹی رہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی تیسرے گروپ کے لئے گنجائش نہیں تھی۔ کوئی ایک دہائی پہلے فلم اداکاروجے کانت نے انا ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے کے مجموعی 10 فیصد ووٹ حاصل کرکے تیسرے امکان کی نشاندہی کی تھی۔ رجنی کانت وجے کانت سے بڑے ایکٹر ہیں اور مقبولیت میں تو ان کا کوئی سانی نہیں ہے۔ رجنی کانت ایسے وقت سیاست میں آرہے ہیں جب کئی دہائیوں تک ریاست کی سیاست کو متاثر کرنے والے دو سرکردہ سیاسی پس منظر سے ہٹ چکے ہیں۔ جے للتا کا دیہانت ہوچکی ہے اور ڈی ایم کے چیف ایم کروناندھی کافی بزرگ ہونے کے سبب اب وہ سیاست میں سرگرم نہیں ہیں۔ حالت یہ ہے کہ جے للتا کے دیہانت کے بعد خالی سیٹ پر ہوئے ضمنی چناؤ میں ان کی جیل میں بند ششی کلا کے بھتیجے دناکرن کامیاب ہوگئے ہیں اور انا ڈی ایم اور ڈی ایم کے کو ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی حالت تاملناڈو میں ایک بڑی سیاست میں خلا کی جانب اشارہ کرتی ہے، جسے رجنی کانت بھرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ سیاست میں آنے کے بعد ان کو کتنی کامیابی ملتی ہے لیکن ایسے شخص کا سیاست میں آنازیادہ اثر دار ثابت نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے تاملناڈو کی سبھی 234 اسمبلی سیٹوں پر چناؤ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اگر وہ اس پر قائم رہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی نکالا جاسکتا ہے کہ فی الحال وہ کسی دیگر پارٹی سے کوئی اتحاد کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ پہلے سے قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ وہ بھاجپا کے رابطے میں ہیں اور ان کے خیالات بھی بھاجپا کے قریب ہی مانے جاتے ہیں۔ چاہے ایم جی رام چندرن رہے ہوں یا جے للتا دونوں فلمی دنیا سے ہی آئے۔ کروناندھی نے بھی فلموں میں کہانیاں لکھیں تو کیا رجنی کانت بھی تاریخ دوہرائیں گے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!