تاکہ ایک جھٹکے میں تین طلاق کی روایت ختم ہو
لوک سبھا نے جمعرات کو تاریخ رقم کرتے ہوئے مسلم خواتین کے لئے لعنت بنی ایک ساتھ تین طلاق (طلاق بدعت) کے خلاف لائے گئے بل کو سوتی ووٹ سے پاس کردیا۔ مسلم خواتین کی آزادی کے لئے انقلابی قدم اٹھاتے ہوئے ایک ساتھ تین طلاق کی بری اور غیر انسانی اور لعنت آمیز روایت کو مجرمانہ قرار دینے والا مسلم شادی حق تحفظ بل 2017 پاس کرکے متاثرہ مسلم خواتین کو بڑی راحت دی ہے۔ بل کی دفعات میں ہے کہ اسلام کا کوئی بھی ماننے والا اپنی بیوی کو ایک بار میں تین طلاق کسی بھی ذریعے سے (ای میل، واٹس ایپ ،ایس ایم ایس) سے دے گا تو اسے تین سال کی جیل اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ایک جھٹکے میں دئے جانے والی تین طلاق کو ناقابل قبول اور غیر آئینی قراردئے جانے کے بعد اس طرح کے منمانی طلاق کے معاملے سامنے آنے کے بعد اس قانون کا بنانا ضروری ہوگیا تھا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدبھی تین طلاق کے معاملہ سامنے آنے سے یہ ہی ظاہر ہورہا ہے کہ طلاق کی اس منمانی روایت نے بہت گہری جڑیں بنا لیں ہیں۔ سپریم کورٹ نے گذشتہ اگست میں مسلم خواتین کے خلاف صدیوں سے چلی آرہی اس غیر انسانی اور ظالمانہ روایت کو غیر آئینی ٹھہراتے ہوئے سرکار کو اس سلسلہ میں قانون بنانے کا حکم دیا تھا۔ بلا شبہ تین طلاق کے معاملہ سامنے آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی تنظیم اور اسد الدین جیسے نیتا شریعت کا غلط حوالہ دیکر اپنے ہی سماج کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور کئی دیگر انجمنوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ بل لانے سے پہلے سرکار نے متعلقہ فریقین سے رائے مشورہ نہیں کیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سزا نہیں ہونی چاہئے تھی اگر مرد کو جیل ہوجائے گی تو طلاق شدہ عورت کو گزارہ بھتہ کون دے گا؟ کانگریس کی سشمتا دیو نے کہا کہ اگر اس قانون میں تین سال کی سزا کو دیکھیں تو اگر قصوروار شوہر جیل میں ہے تو متاثرہ عورت کو گزارہ بھتہ کون دے گا۔ قانونی ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ شوہر کے جیل جانے کے بعد بیوی اور بچوں کے گزر بسر کا مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ شوہر اگر نوکری میں ہوا تو جیل جاتے ہی وہ برخاست ہوجائے گا اور اسکی تنخواہ رک جائے گی۔اگر وہ کاروباری ہوا تو بھی اس کی آمدنی پر اثر پڑے گا ایسے میں بیوی بچوں کی زندگی کیسے چلے گی؟ اسی اندیشے سے عورتیں ایسے معاملوں میں سامنے آنے سے کترا سکتی ہیں۔
عورت شوہر کی پراپرٹی سے گزارہ بھتہ لے سکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں مجوزہ قانون میں کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ کانگریس نے اس بل کو حمایت دے کر ایک طرح سے 40 سال پرانی اپنی غلطی ہو سدھار لیا ہے۔ اگر راجیو گاندھی کی لیڈر شپ والی سرکار نے شاہ بانو کے معاملہ میں دئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹا نہیں ہوتا تو شاید اس بل کی نوبت نہیں آتی۔ اگر ووٹ بینک کی سیاست کوترجیح نہیں دی گئی ہوتی تو شاید مسلم سماج اب تک تین طلاق کی منمانی روایت کے ساتھ دیگر برائیوں سے نجات پا گیا ہوتا۔ کیا یہ اپنے آپ میں متضاد نہیں ہے۔ لیفٹ سمیت کچھ دیگر نیتا اس کو سیاسی اغراز پر مبنی بتا رہے ہیں لیکن سچائی تو یہ ہے کہ سماجی برائیوں کا خاتمہ بھی آخر اسی کے ذریعے ہوتا رہا ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ بل کی سب سے زیادہ مخالفت ان پارٹیوں نے کی ہے جو سماجی انصاف کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتی ہیں۔ اس سلسلہ میں لوک سبھا میں آر جے ڈی ، بی جے ڈی کی مخالفت اور ٹی ایم سی کی خاموشی کے پیچھے سوائے ووٹوں کی سیاست کے علاوہ کوئی دوسرا نظریہ نہیں ہے۔ دراصل کٹر پنتھی ،دقیانوسی اور دیگر برائیوں کی سیاسی دوکان کسی بھی ترقی پسند قدم کی مخالفت پر نہیں چلتی۔ بلا شبہ منمانی تین طلاق کے خلاف قانون بن جانے سے محض یہ صدیوں پرانی برائی ختم ہونے والی نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ عورتوں کو بے سہارا بنادینے والی برائیوں کو ختم کرنے لئے قانون کا سہارا نہیں لیا جانا چاہئے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ بل جن کے حق میں ہے انہوں نے خوشی ظاہر کی ہے تو باقی لوگوں کی مخالفت کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ستی پرتھا، جہیز اور بچیوں کی شادی جیسی برائیوں کے خلاف قانون بنائے جاچکے ہیں۔ اسی بیداری کی ضرورت تین طلاق کے چلن کو ختم کرنے کے معاملہ میں بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پر غور ہونا چاہئے کہ تین طلاق کے خلاف بننے جارہا قانون کہیں ضرورت سے زیادہ سخت نہ ہو اور درکار نتیجے ملیں گے یا نہیں ایساہم اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ اس مجوزہ قانون کی کچھ دفعات کو لیکر کچھ جائز سوال اٹھ رہے ہیں۔ بہتر ہوکہ پارلیمنٹ کی آخری مہر لگنے تک یہ مجوزہ قانون ایسے سوالوں کا باقاعدہ جواب دینے میں اہل ہوجائے۔
عورت شوہر کی پراپرٹی سے گزارہ بھتہ لے سکتی ہے یا نہیں؟ اس بارے میں مجوزہ قانون میں کوئی بات نہیں کہی گئی ہے۔ کانگریس نے اس بل کو حمایت دے کر ایک طرح سے 40 سال پرانی اپنی غلطی ہو سدھار لیا ہے۔ اگر راجیو گاندھی کی لیڈر شپ والی سرکار نے شاہ بانو کے معاملہ میں دئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو پلٹا نہیں ہوتا تو شاید اس بل کی نوبت نہیں آتی۔ اگر ووٹ بینک کی سیاست کوترجیح نہیں دی گئی ہوتی تو شاید مسلم سماج اب تک تین طلاق کی منمانی روایت کے ساتھ دیگر برائیوں سے نجات پا گیا ہوتا۔ کیا یہ اپنے آپ میں متضاد نہیں ہے۔ لیفٹ سمیت کچھ دیگر نیتا اس کو سیاسی اغراز پر مبنی بتا رہے ہیں لیکن سچائی تو یہ ہے کہ سماجی برائیوں کا خاتمہ بھی آخر اسی کے ذریعے ہوتا رہا ہے۔ تعجب اس بات پر ہے کہ بل کی سب سے زیادہ مخالفت ان پارٹیوں نے کی ہے جو سماجی انصاف کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتی ہیں۔ اس سلسلہ میں لوک سبھا میں آر جے ڈی ، بی جے ڈی کی مخالفت اور ٹی ایم سی کی خاموشی کے پیچھے سوائے ووٹوں کی سیاست کے علاوہ کوئی دوسرا نظریہ نہیں ہے۔ دراصل کٹر پنتھی ،دقیانوسی اور دیگر برائیوں کی سیاسی دوکان کسی بھی ترقی پسند قدم کی مخالفت پر نہیں چلتی۔ بلا شبہ منمانی تین طلاق کے خلاف قانون بن جانے سے محض یہ صدیوں پرانی برائی ختم ہونے والی نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ عورتوں کو بے سہارا بنادینے والی برائیوں کو ختم کرنے لئے قانون کا سہارا نہیں لیا جانا چاہئے۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ بل جن کے حق میں ہے انہوں نے خوشی ظاہر کی ہے تو باقی لوگوں کی مخالفت کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ستی پرتھا، جہیز اور بچیوں کی شادی جیسی برائیوں کے خلاف قانون بنائے جاچکے ہیں۔ اسی بیداری کی ضرورت تین طلاق کے چلن کو ختم کرنے کے معاملہ میں بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پر غور ہونا چاہئے کہ تین طلاق کے خلاف بننے جارہا قانون کہیں ضرورت سے زیادہ سخت نہ ہو اور درکار نتیجے ملیں گے یا نہیں ایساہم اس لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ اس مجوزہ قانون کی کچھ دفعات کو لیکر کچھ جائز سوال اٹھ رہے ہیں۔ بہتر ہوکہ پارلیمنٹ کی آخری مہر لگنے تک یہ مجوزہ قانون ایسے سوالوں کا باقاعدہ جواب دینے میں اہل ہوجائے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں